غیبت اور عصر حاضر میں اس کے اثرات

قرآن مجید ایک کامل ضابطہ حیات ہے کہ جس پر کسی کو کوئی اعتراض اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اسی طرح اگر قرآن کریم میں کسی چیز کی بارے میں برے الفاظ میں ذکر کیا گیا ہوبے شک وہ ایک ایسی برائی ہوگی جس کے بدتر ہونے میں کوئی نظیر نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے دوری اختیار کرنے کا کہا گیا ہے ۔

ٹھیک ایسی برائیوں میں ایک کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے

"  وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ" (الحجرات: 12).

یقیناً موضوع مانوس ہے کہ جس میں انتہائی کثیر تعداد میں اہل ایمان مبتلا ہیں اور اس کو ہیچ سمجھا ہے مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک عظیم تر ہےاور عصر حاضرمیں پھیلتی ہوئی بیماری ہے  جس کی وعید کے بارے میں کافی روایات موجود ہیں ۔

اور قرآن مجید میں ایسی برائی کا ذکر ایسے حالات کے ساتھ کے جس کا کوئی نظیر نہیں ہے کہ"غیبت کرنے والا ایسے ہےکہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے"

 اور ایسی مشکلات کے علاج کے لئے اور اپنے نفسوں کے ان سے محفوظ رکھنے کے لئے معرفت ضروری ہے۔اس ضمن میں آئمہ اہلبیت علیہم السلام سے کافی روایات موجود ہیں

صاحب جواہر روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ابوذر سے فرمایا:

"غیبت سے خبر دار رہو کہ غیبت زنا سے بھی شدید تر ہےاور دوسری روایت میں ہے کہ "غیبت کرنے والا بروز قیامت اپنا گوشت کھانے والے کی حالت میں ہوگا"

اور  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے قول ہے کہ

"جو کوئی بھی کسی مؤمن کے بارے میں اہانت کی غرض سے کوئی بات بیان کرے اور اس کے تضلیل کرے تاکہ وہ لوگوں کی نظروں میں پست ہو جائے اللہ تعالی ٰ اس کو اپنی ولایت سے نکال کر شیطان کی ولایت میں ڈال دیتا ہے۔

ایسے ہی امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے کہ "غیبت مت کرو کہ تمہاری غیبت کی جائے گی،اور اپنے بھائی کے لئے گڑھا مت کھودو پس تم ہی اس میں گرو گے کیونکہ جیسا کروگے ویسا ہی تمہارے ساتھ ہوگا"

غیبت کی حرمت تو ظاہراً کسی پر مخفی نہیں مگر اس کے احوال کے بارے میں فقہی نظر ڈالتے ہیں ۔

غیبت: مومن کی غیبت کرنا اس حالت میں کہ وہ حاضرین میں موجود نہ ہو چاہے یہ عیب لوگوں پر ظاہر نہ ہو یابیا ن کرنے والے کا قصد مومن کا نقص بیان کرنا ہواور کسی بھی حالت میں عیب ہو مثلاً عیب بدنی ،نسبی(موجود ہ عصر میں قومیت کی شکل میں ناسور)،اس کے اقوال ،دینی یا دنیاوی شکل میں ہو کو لوگوں میں بیان کرے اور غیبت کا بیان کرنا کسی حالت میں چاہے قولاً بیان کرے یا فعلا ً ثابت کرے۔

غیبت کی تعریف کا باب اتنا وسیع ہے کہ مختصراً اتنا کہہ سکتے ہیں کہ "غیبت کسی مؤمن بھائی کے عیوب کو دوسرے لوگوں پر آشکار کرناہے"

اور اس کا حقیقی مقصد غیبت کرنے والا اس سبب سے کہ یاتو حسد میں بیان کرتا ہے جو کہ خود غیبت کی مانند برائی ہےیا دشمنی میں کہے جو کہ ایک مذموم صفت ہے

مگر چند علماء نے چند موارد میں غیبت کو جائز قرار دیا ہے جن میں ایسے شخص کے عیوب کو آشکار کرنا جو علی الاعلان فسق کا راستہ اختیار کرے ایسی فاسق صفات میں ایک ظالم کا مظلوم کہ مظلوم کی نصرت میں ظالم کے عیب کوآشکار کرنا ایک حد تک جائز ہے۔

اسی طرح مثلا مومن  کو نصیحتاً ازدواجی بندھن سے پہلے زوج  یا زوجہ کو دوسرے کے بارے میں باخبر کرنے کی غرض سے تاکہ بعد کے حالات سے محفوظ رہا جاسکے  اور اسی طرح کثیر موارد میں مصلحتاً جائز قرار دیا ہے تاکہ عزت مومن کی حفاظت کی جاسکے۔

اور ٹھیک اسی طرح غیبت کرنے والے سے بچنا اور اس کا سدباب سننے والے پر ضروری ہے۔

اور شاید کافی حد تک یہ مروج ہے کہ فاسق کی عیب جوئی اور فسق بیان کرنا غیبت کے زمرے میں نہیں ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کی بھی اس ایک ایسی برائی اور معصیت کو جسکا وہ علی الاعلان مرتکب ہو بیان کرنا جائز ہے اور اگر ایسے گناہ و برائی کو لوگوں کے سامنے آشکار کرنا کہ جو دوسروں کے سامنے آشکار نہ ہو بیان کرنے والا غیبت کرنے والے کے زمرے میں آتا ہے۔

پھر اسی طرح خود سننے والا بھی غیبت کرنے والے کی مانند گناہ میں شریک ہوتا ہے۔۔۔۔جیسے اس میت کے گوشت کھانے میں ، یا کم از کم اس منظر کا عینی شاہد ہوتا ہے ۔

اسی لئے کم از کم ہمیں چاہئےکہ

ایسے مشاہد سے کم از کم اخلاقاً اور شرعاً دور رہنا چاہئے  جن پر خودآئمہ اہلبیت علیہم السلام سے وعید وارد ہے

اور یہی برائیاں حال میں کافی جرائم کا سبب ہیں اور دینی و معاشرتی زندگی  میں بغض اور نفاق کا سبب ہیں اور ان سے پھیلنے والی ذیلی برائیوں کی فہرست طویل ہے اسی لئے ان سے محتاط رہنا چاہئے اور اس کے سننے اور بیان کرنے والے پر عذاب کے متعلق  جو روایات میں وارد ہیں  اسی مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔

منسلکات