عید کی نماز کے خطیب نے کربلاء مقدسہ میں خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ معاشرتی بیماریوں کے علاج کے لیے امام علی (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے امام حسن (علیہ السلام) کو دی گئی وصیت پر عمل ضروری ہے، جن بیماریوں نے معاشرے کو نقصان پہنچایا ہے اور جنہیں دشمن نے تفرقہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
شیخ احمد الصافی نے آج بروز پیر (31 مارچ 2025) روضہ مبارک حضرت امام حسین (ع) میں عید کی نماز کے خطبے کے دوران فرمایا کہ:
"میں آپ کے سامنے امام علی (ع) کی اپنے بیٹے امام حسن (ع) کو دی گئی وصیت کا ایک حصہ پیش کرتا ہوں، جس میں فرمایا:
‘جب تمہارا بھائی تم سے تعلق توڑ لے تو تم تعلق جوڑنے کی کوشش کرو، جب وہ منہ موڑے تو تم لطف و محبت سے پیش آؤ، جب وہ بخل کرے تو تم سخاوت دکھاؤ، جب وہ دور ہو جائے تو تم قریب ہو جاؤ، جب وہ سختی کرے تو تم نرمی کرو، اور جب وہ تم پر ظلم کرے تو تم اسے معاف کر دو، یہاں تک کہ تم اس کے غلام بن جاؤ اور وہ تم پر احسان کرنے والا معلوم ہو۔’"
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی انحطاط کے خطرے سے دوچار ہے، خاص طور پر ان برے رویوں سے جو شیطان انسان کو مزین کر کے دکھاتا ہے تاکہ وہ انہیں علانیہ کرے اور ان کا دفاع بھی کرے۔
شیخ صافی نے کہا کہ ان امور میں سے ایک اہم مسئلہ لوگوں کے درمیان قطع تعلق اور دوری ہے، اور اس کا علاج امام علی (ع) کی وصیت میں ہے، کہ (احمل نفسک من أخیک) یعنی اگر تمہارا مؤمن بھائی تم سے دور ہو جائے تو تم سچائی اور نرمی کے ساتھ اس سے قریب ہو جاؤ۔ اگر وہ تعلق توڑ دے تو تم اس سے تعلق قائم کرو۔ انہوں نے واضح کیا کہ قطع تعلق معاشرتی آفات میں سے سب سے خطرناک آفت ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسلام نے قطع تعلق کو (حرام) قرار دیا ہے، جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ "اگر ایک مسلمان تین دن تک اپنے مسلمان بھائی سے تعلق توڑ لے تو ان کے درمیان ولایت ختم ہو جاتی ہے"، یعنی وہ اللہ اور مؤمنین کی ولایت سے خارج ہو جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:
"اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ"
یعنی اللہ کی ولایت ہمارے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے باہر نکلنا ممکن نہیں۔
انہوں نے فرمایا کہ مؤمن اور مؤمن کے درمیان ولایت کا رشتہ ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے:
"وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ"
یہ ولایت محبت، دوستی، مدد اور نصرت پر مبنی ہوتی ہے۔
شیخ صافی نے کہا کہ اگر رشتہ داروں یا دوستوں کے درمیان دوری پیدا ہو جائے تو مؤمن کا فرض ہے کہ وہ تعلق جوڑے، جیسا کہ وصیت میں ہے:
"احمل نفسك من أخيك عند صرمه على الصلة"
یعنی جب بھائی تعلق توڑ دے تو تم تعلق قائم کرو، اور جب وہ منہ موڑے تو تم لطف سے پیش آؤ۔
انہوں نے زور دیا کہ ان معاشرتی بیماریوں کا علاج آسان ہے: صرف سلام کرنے اور رابطہ قائم کرنے سے دشمنی محبت میں بدل سکتی ہے۔ اور یہ صفات مؤمنین میں ہونی چاہئیں، کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے، الہیٰ قانون ہے، کوئی تجربہ نہیں۔ یہ سنتِ الٰہیہ ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
"ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ"
یعنی اگر تم اچھائی سے جواب دو تو دشمن بھی تمہارا قریبی دوست بن سکتا ہے۔
انہوں نے مزید وصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
"وعند جموده على البذل"
یعنی اگر بھائی بخل کرے تو تم سخاوت کرو، اگر وہ برائی کرے تو تم بھلائی سے جواب دو۔
اسی طرح فرمایا:
"وعند تباعده على الدنو، وعن شدته على اللين"
یعنی اگر بھائی دوری اختیار کرے تو تم قریب ہو جاؤ، اگر وہ سختی کرے تو تم نرمی سے پیش آؤ۔
انہوں نے خبردار کیا کہ یہ مسئلہ اکثر گھر کے اندر، بہن بھائیوں، میاں بیوی، والدین اور بچوں کے درمیان بھی پایا جاتا ہے، حتیٰ کہ کام کی جگہ پر بھی۔
وصیت کے آخری حصے میں فرمایا:
"وعند جرمه على العذر حتى كأنك له عبد وكأنه ذو نعمة عليك"
یعنی اگر وہ تمہارے ساتھ زیادتی کرے تو تم اسے معاف کرو، اور یوں پیش آؤ گویا وہ تم پر احسان کرنے والا ہے، چاہے وہ ایسا نہ ہو۔
آخر میں شیخ الصافی نے سوال کیا:
"اگر ہمارا معاشرہ اس وصیت پر عمل کرے تو کیا کوئی دشمن ہمارے درمیان تفرقہ ڈال سکے گا؟ کیا کوئی ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر سکے گا؟"