امام زمانہؑ (امام مہدیؑ) کے موضوع پر ایک جامع تحریر ہے، جس مضمون میں شیعہ اور سنّی دونوں مکاتبِ فکر کی منتخب کتب و مصادر سے اہم حوالہ جات کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کا مقصد ایک علمی و تاریخی جائزہ پیش کرنا ہے، تاکہ قارئین امام مہدیؑ کے عقیدے کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہوسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقت تک رسائی اور ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔
فہرستِ مضامین
تمہیدی کلمات اور تعارفامام مہدیؑ کا مختصر تاریخی پس منظرقرآن مجید میں ہدایت اور امامت کا تصوراحادیثِ نبویؐ میں امام مہدیؑ کا تذکرہ**شیعہ نقطۂ نظر:5.1 ولادتِ امام مہدیؑ5.2 دورِ غیبت صغریٰ و کبرىٰ5.3 غیبت کے اسباب اور فلسفہ5.4 اہم شیعہ مصادر اور حوالے****سنی نقطۂ نظر:6.1 امام مہدیؑ کی علامات اور خصوصیات6.2 اہم سنی احادیث اور ان کے مصادر**امام مہدیؑ کی عالمی اصلاح اور عدل و انصاف کا قیامظہور کی نشانیاں اور وجوہِ تاخیردونوں مکاتبِ فکر کے درمیان مشترک نکاتامام مہدیؑ کا انتظار اور اس کے اثراتخلاصہ اور اختتامی کلماتحوالہ جات کی فہرست (منتخب)1. تمہیدی کلمات اور تعارف
اسلامی تعلیمات میں ’امام مہدیؑ‘ یا ’امام زمانہؑ‘ کا تصور نہایت مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانانِ عالم کے ایک بڑے طبقے کا عقیدہ ہے کہ قیامت سے قبل ایک ایسی ہستی کا ظہور ہوگا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گی جس طرح یہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی۔ اس ہستی کو شیعہ اور سنّی دونوں مکاتب میں مختلف ناموں اور القابات سے پہچانا جاتا ہے، مگر سب سے زیادہ معروف لقب ’امام مہدیؑ‘ یا ’مہدیِ موعود‘ ہے۔
لفظ ’مہدی‘ عربی زبان کے لفظ ’ہدایت‘ سے نکلا ہے، جس کے معنی ہدایت یافتہ یا ہدایت کرنے والے کے ہیں۔ اسلامی روایات میں امام مہدیؑ کا تذکرہ آنحضرتؐ کے بعد امت کی قیادت اور انسانی معاشرے کی اصلاح کے لیے ایک موعود نجات دہندہ کے طور پر کیا گیا ہے۔ شیعہ عقیدے میں یہ ہستی بارہویں امام حضرت امام محمد بن حسن العسکریؑ ہیں جو سن 255 ہجری کے قریب پیدا ہوئے اور اللہ کے حکم سے غیبت میں چلے گئے۔ سنّی مکتب فکر میں بھی امام مہدیؑ کے ظہور کی متعدد احادیث پائی جاتی ہیں، جن میں ان کا نسب نبی کریمؐ کی اولاد سے ہونا اور ان کے ذریعہ سے زمین پر عدل و انصاف کا قیام ہونا ثابت کیا جاتا ہے۔
امام مہدیؑ کی شخصیت صرف مذہبی نقطۂ نظر سے ہی نہیں بلکہ سماجی، سیاسی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے بھی بہت اہم ہے۔ ہر دور کے مسلمان بالخصوص اور انسانیت بالعموم ظلم و ستم سے نجات، عدل کے قیام اور اخلاقی اقدار کی بحالی کے لیے ایک نجات دہندہ کی تلاش میں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام مہدیؑ کا تصور مسلمانوں کے اعتقادی اور فکری مباحث میں نمایاں طور پر موجود ہے۔
2. امام مہدیؑ کا مختصر تاریخی پس منظر
شیعہ اثنا عشری کے مطابق امام مہدیؑ (امام محمد بن حسن العسکریؑ) کی ولادت سنہ 255 ہجری یا 256 ہجری میں سامرّہ (عراق) میں ہوئی۔ آپؑ کے والد امام حسن عسکریؑ اور دادا امام علی نقیؑ ہیں۔ سلسلہ نسب نبی کریمؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے جاملتا ہے۔ امام مہدیؑ نے اپنے بچپن میں ہی ایسی غیرمعمولی معرفت اور علم کے نمونے پیش کیے جو امامت کی دلیل کے طور پر شیعہ کتب میں بیان ہوتے ہیں۔ سنّی مورخین میں بھی ایسی روایات ملتی ہیں جن میں امام حسن عسکریؑ کے بیٹے کے وجود کا ذکر کیا گیا ہے۔
امام حسن عسکریؑ کی شہادت سنہ 260 ہجری میں ہوئی۔ اس کے بعد شیعہ روایات کے مطابق امام مہدیؑ کی امامت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ابتدا میں آپؑ کا عوام الناس میں ظاہری رابطہ نہیں تھا لیکن آپؑ کے چار مخصوص نوّاب یا سفرا کے ذریعے شیعہ مومنین آپ سے رابطے میں تھے۔ اس دور کو ’غیبتِ صغریٰ‘ کہا جاتا ہے، جو تقریباً 69 سال جاری رہی۔ اس کے بعد ’غیبتِ کبرىٰ‘ کا آغاز ہوا، جو اب تک جاری ہے اور شیعہ عقیدے کے مطابق امام مہدیؑ اللہ کے اذن سے ظہور فرمائیں گے۔
3. قرآن مجید میں ہدایت اور امامت کا تصور
اگرچہ قرآن مجید میں لفظ ’مہدی‘ یا ’امام مہدیؑ‘ صراحت کے ساتھ مذکور نہیں، لیکن متعدد آیات میں ہدایت، رہنمائی اور امامت کے تصورات پر زور دیا گیا ہے۔ شیعہ مفسرین اور بعض سنّی مفسرین بھی ایسی آیات کی تفسیر میں امام مہدیؑ کے مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
سورہ قصص (28) آیت 5:وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
یعنی ہم چاہتے ہیں کہ جنہیں زمین میں کمزور کر دیا گیا ہے، ان پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کے وارث قرار دیں۔
شیعہ مفسرین اس آیت کو ظہورِ امام مہدیؑ کے ساتھ جوڑتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جن کے ذریعے عدل و انصاف کو قائم کرنا ہے، وہ مستضعفین کے وارث بنیں گے۔
سورہ توبہ (9) آیت 33 اور سورہ صف (61) آیت 9:هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ
یعنی اللہ وہ ہستی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے۔
مفسرین کے نزدیک اس مکمل غلبے کا ظہور امام مہدیؑ کے عہد میں ہوگا۔
سورہ بقرہ (2) آیت 124 میں حضرت ابراہیمؑ کی امامت کا ذکر ہے:إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا
اس آیت سے امامت کا تصور واضح ہوتا ہے کہ اللہ جس کو چاہے امامت کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ شیعہ نقطۂ نظر میں یہ ذمہ داری نبی کریمؐ کے بعد ائمہ اہل بیتؑ کو منتقل ہوئی اور آخر میں بارہویں امام، امام مہدیؑ اس منصب کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ تفاسیر اور تاویلات شیعہ اور بعض سنّی علماء کی تشریحات پر مشتمل ہیں، جن میں امام مہدیؑ کے تصور کو قرآنی امامت اور خدا کی طرف سے وعدہ شدہ غلبۂ دین کے ذیل میں دیکھا جاتا ہے۔
4. احادیثِ نبویؐ میں امام مہدیؑ کا تذکرہ
نبی کریمؐ سے منقول متعدد احادیث میں آخرالزمان میں آنے والی ایک ہستی کا ذکر ہے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گی۔ اہل سنّت والجماعت کی مشہور کتب احادیث میں سے کئی کتب میں یہ روایات موجود ہیں، مثلاً:
سنان ابی داود (باب المہدی)جامع ترمذیسنن ابن ماجہ (کتاب الفتن)مسند احمد بن حنبلمستدرک حاکمصحاح ستہ میں دیگر مقاماتان روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ امام مہدیؑ کا تعلق اہل بیتِ رسولؐ سے ہوگا، آپ کا نام نامی محمد اور کنیت ابو القاسم ہوگی، آپ حضرت فاطمہؑ کی نسل سے ہوں گے، اور آپ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
ایک مشہور حدیث جسے سنّی اور شیعہ دونوں حوالوں میں نقل کیا گیا، اس کا مفہوم یہ ہے کہ:
"اگر دنیا کی زندگی میں صرف ایک دن بھی باقی رہ جائے تو اللہ اس دن کو اتنا دراز کردے گا کہ میری عترت میں سے ایک شخص ظاہر ہوگا جس کا نام میرا نام اور باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح یہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی۔"
(حوالہ: سنن ابی داود، کتاب المہدی، حدیث نمبر 4282؛ جامع ترمذی، ابواب الفتن، حدیث نمبر 2230؛ مسند احمد بن حنبل، جلد 1، ص 376 وغیرہ)
اسی طرح شیعہ کتبِ احادیث و روایات میں بھی بکثرت ایسی احادیث ہیں جن میں بارہ ائمہ کا ذکر ہے، ان کے نام، ان کے اوصاف اور ان کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ بارہویں امام ہی امام مہدیؑ ہیں۔
5. شیعہ نقطۂ نظر
5.1 ولادتِ امام مہدیؑ
شیعہ عقیدے کے مطابق امام مہدیؑ کی ولادت پندرہ شعبان سنہ 255 ہجری کو سامرّہ میں ہوئی۔ آپؑ کے والد امام حسن عسکریؑ اس وقت ظاہری طور پر دربارِ عباسی کے زیرِ نگرانی تھے۔ امام مہدیؑ کی ولادت بہت سے لوگوں پر مخفی رکھی گئی کیونکہ عباسی حکمرانوں کو ائمہ اہل بیتؑ کی امامت کے بارے میں علم تھا اور انہیں خطرہ تھا کہ اگر مہدی موعودؑ کا ظہور ہوگیا تو ان کی حکومت کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شیخ صدوقؒ اپنی مشہور کتاب کمال الدین و تمام النعمہ میں متعدد روایات کے ذریعے امام مہدیؑ کی ولادت کے واقعات، گواہان اور حالات کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح شیخ کلینیؒ کی الکافی میں بھی اس حوالے سے مختلف احادیث نقل ہوئی ہیں۔ علامہ مجلسیؒ نے اپنی کتاب بحار الانوار میں بھی ولادتِ امام مہدیؑ پر تفصیلی بحث کی ہے۔
اہم حوالہ جات شیعہ کتب سے:
کمال الدین و تمام النعمہ از شیخ صدوق (وفات 381 ہجری)، جلد 1، صفحہ 284 اور آگےالکافی از شیخ کلینی (وفات 329 ہجری)، جلد 1، صفحہ 336کتاب الغیبہ از شیخ طوسی (وفات 460 ہجری)، صفحہ 102بحار الانوار از علامہ مجلسی (وفات 1110 ہجری)، جلد 51 تا 535.2 دورِ غیبت صغریٰ و کبرىٰ
امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد امام مہدیؑ نے اللہ کے حکم سے پردۂ غیب اختیار کیا۔ اس غیبت کے دو مرحلے ہیں:
غیبتِ صغریٰ (260 ہجری تا 329 ہجری)اس عرصے میں امام مہدیؑ کے چار خصوصی نواب یا سفراء تھے:عثمان بن سعید عمریمحمد بن عثمان عمریحسین بن روح نوبختیعلی بن محمد سمرییہ لوگ امامؑ اور عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھے۔ شیعہ مؤمنین اپنی مشکلات، سوالات اور شرعی مسائل کے جوابات ان کے ذریعے امامؑ تک پہنچاتے تھے اور ہدایت حاصل کرتے تھے۔غیبتِ کبرىٰ (329 ہجری تا حال)چوتھے نائب علی بن محمد سمری کی وفات کے وقت امام نے ایک فرمان جاری کیا کہ اب کسی کو نائب خاص مقرر نہیں کیا جائے گا اور یہ زمانۂ غیبتِ کبرىٰ ہوگا۔ اس کے بعد سے شیعہ مؤمنین دینی معاملات میں مجتہدین اور فقہاء کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ البتہ عقیدہ یہ ہے کہ امام مہدیؑ اللہ کے حکم سے پردۂ غیب میں ہیں اور مناسب وقت پر ظہور فرمائیں گے۔5.3 غیبت کے اسباب اور فلسفہ
شیعہ علماء کے نزدیک امام مہدیؑ کی غیبت کے متعدد اسباب بیان کیے گئے ہیں، جن میں سرفہرست یہ ہے کہ ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں آپؑ کو جان کا خطرہ تھا۔ جیسا کہ پچھلے ائمہؑ کو ہمیشہ سرکاری سطح پر دباؤ کا سامنا رہا۔ مزید برآں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امتحانِ امت اور تقاضائے الٰہی یہ تھا کہ امامؑ ایک عرصے تک غیبت میں رہیں تاکہ لوگ حقیقی معنوں میں امامؑ کی قدر اور الٰہی رہنمائی کی اہمیت کو سمجھیں۔ اسی طرح امام کے ظہور سے قبل دنیا کو اس حد تک ظلم و ستم سے بھرجانا ہے کہ امامؑ کے آنے کی ضرورت کو ہر ذی شعور محسوس کرسکے۔
5.4 اہم شیعہ مصادر اور حوالے
الکافی (شیخ کلینی): اس کتاب میں امامت کے موضوع پر کئی ابواب شامل ہیں۔ امام مہدیؑ کے بارے میں مفصل روایات موجود ہیں۔کمال الدین و تمام النعمہ (شیخ صدوق): غیبت اور ظہورِ امام مہدیؑ کے موضوع پر ایک جامع تصنیف، جس میں ولادت سے لے کر ظہور تک کے تمام مباحث کو دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔کتاب الغیبہ (شیخ طوسی): امام مہدیؑ کی غیبت کے حوالے سے سب سے قدیم اور مستند کتب میں سے ایک۔الارشاد (شیخ مفید): ائمہ اہل بیتؑ کی مختصر سوانح اور فضائل کے ساتھ ساتھ بارہویں امامؑ کے حالات کا تذکرہ بھی۔بحار الانوار (علامہ مجلسی): ایک encyclopedic تصنیف، جس کے کئی جلدوں میں صرف امام مہدیؑ کے حالات و روایات بیان ہوئی ہیں۔6. سنی نقطۂ نظر
سنّی مکتبِ فکر کے علمائے کرام بھی امام مہدیؑ کے ظہور اور ان کے آخرالزمان میں قیامِ عدل کے قائل ہیں۔ اگرچہ امام مہدیؑ کی ولادت اور غیبت کے مسائل میں شیعہ اور سنّی روایات میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے، لیکن بنیادی عقیدہ اکثر سنّی علماء میں بھی پایا جاتا ہے کہ مہدیؑ کا ظہور یقینی ہے اور آپؑ نبی کریمؐ کی اولاد میں سے ہوں گے۔
6.1 امام مہدیؑ کی علامات اور خصوصیات
سنّی احادیث میں امام مہدیؑ کے جو اوصاف اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں، ان میں شامل ہیں:
آپ کا نام حضرت محمدؐ کے نام پر ہوگا (’محمد‘) اور آپ کے والد کا نام نبی کریمؐ کے والد کے نام پر ہوگا (’عبد اللہ‘) - بعض روایات میں اشارہ ہے کہ آپ کا والد فاطمی یا علوی سلسلے سے ہوگا۔آپؑ نبی کریمؐ کی اولاد (اهل بیتؑ) میں سے ہوں گے اور حسنی یا حسینی نسبت رکھی جاتی ہے۔آپؑ کی پیشانی چمک دار اور ناک ابھری ہوئی ہوگی۔آپؑ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جیسے یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔آپؑ سات یا نو سال تک حکومت کریں گے (مختلف روایات میں مدت کا اختلاف ہے)۔آپؑ کے دور میں امت میں وحدت اور اخوت کی فضا قائم ہوگی اور مسلمان ایک بار پھر عروج حاصل کریں گے۔6.2 اہم سنی احادیث اور ان کے مصادر
سنن ابی داود: کتاب المہدی میں متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ "مہدی مجھ سے ہیں، وہ میری عترت میں سے ہوں گے، زمین کو عدل سے بھردیں گے" (حدیث نمبر 4282 وغیرہ)۔جامع ترمذی: ابواب الفتن میں امام مہدیؑ کے بارے میں روایات ملتی ہیں (مثلاً حدیث نمبر 2230، 2231)۔سنن ابن ماجہ: کتاب الفتن میں مہدیؑ کی نشانیاں اور ظہور کے حوالے سے تذکرہ۔مسند احمد بن حنبل: مختلف احادیث امام مہدیؑ کے اوصاف کے بارے میں بیان کی گئی ہیں۔مستدرک حاکم: حاکم نیشاپوری نے مہدیؑ کے سلسلے میں متعدد روایات کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔الصواعق المحرقہ (ابن حجر مکی): اس کتاب میں بھی اہل بیتؑ اور مہدیؑ کے بارے میں بحث ملتی ہے۔سنّی علماء میں کچھ ایسے بھی ہیں جو مہدویت کی روایات میں سے بعض کو ضعیف گردانتے ہیں۔ تاہم جمہور اہل سنّت کی اکثریت اس عقیدے کو تسلیم کرتی ہے کہ امام مہدیؑ کا ظہور ہونا ایک ثابت شدہ امر ہے۔
7. امام مہدیؑ کی عالمی اصلاح اور عدل و انصاف کا قیام
امام مہدیؑ کا بنیادی مشن اس دنیا میں الٰہی عدل کا قیام ہے۔ ظلم، ناانصافی، طبقاتی تفریق، کرپشن اور بد اخلاقی کے مروجہ کلچر کو ختم کرکے ایک عادلانہ نظام نافذ کرنا آپؑ کا مقصد بتایا گیا ہے۔ شیعہ روایات میں ذکر ملتا ہے کہ امام مہدیؑ کے ہمراہ حضرت عیسیٰؑ بھی نزول فرمائیں گے اور دونوں مل کر توحید اور عدل کا پرچم بلند کریں گے۔ سنّی روایات میں بھی اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ نزولِ عیسیٰؑ کے وقت امام مہدیؑ امت کی قیادت کر رہے ہوں گے اور حضرت عیسیٰؑ ان کے پیچھے نماز ادا کریں گے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ حضرت عیسیٰؑ شریعتِ محمدیؐ کے تابع ہیں اور کسی نئی شریعت کا آغاز نہیں ہوگا۔
امام مہدیؑ کی عالمی اصلاح محض ایک سیاسی انقلاب نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر اخلاقی و روحانی تبدیلی ہوگی۔ احادیث میں ہے کہ آپؑ کے ظہور کے وقت دنیا بھر میں اہل ایمان کے دلوں میں تقویٰ اور خوفِ خدا پیدا ہوگا، معاشی عدل کی وجہ سے غربت کا خاتمہ ہوگا اور زمین اپنی برکات کو ظاہر کرے گی۔
8. ظہور کی نشانیاں اور وجوہِ تاخیر
دونوں مکاتبِ فکر (شیعہ اور سنّی) میں امام مہدیؑ کے ظہور سے پہلے کچھ علامات کا ذکر ہوا ہے، جنہیں علاماتِ ظہور کہا جاتا ہے۔ یہ علامات بعض روایات میں چھوٹی اور بڑی علامات کے طور پر تقسیم کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
دنیا بھر میں بے انصافیاں، ظلم اور فساد میں اضافہ۔عمومی سطح پر دین سے دوری، اخلاقی گراوٹ، فحشا و منکرات کا پھیل جانا۔فتنوں اور جنگوں کا فروغ، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے علاقے میں مختلف فتنے۔آسمانی اور زمینی غیرمعمولی واقعات (مثلاً سورج اور چاند گرہن وغیرہ کے مخصوص تواریخ پر رونما ہونے کی روایات، بعض روایات میں ستاروں کی گرنے یا غیرمعمولی آوازوں کا ذکر)۔یمنی، سفیانی اور دیگر کرداروں کا ظہور (بالخصوص شیعہ روایات میں)۔سفیانی کی شام کی سرزمین سے تحریک اور فتنہ، جس کے بعد امام مہدیؑ کا ظہور ہوگا۔وجوہِ تاخیر:
بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر امام مہدیؑ واقعی موجود ہیں تو ظہور میں اتنی تاخیر کیوں ہے؟ اس بارے میں علماء کہتے ہیں کہ ظہور کا وقت اللہ کی حکمت میں ہے اور جب دنیا اصلاح کے لیے مکمل طور پر تیار ہوجائے گی یا ضروری حالات فراہم ہوجائیں گے تو امامؑ کا ظہور ہوگا۔ ایک اور فلسفہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اختیار دیا ہے تاکہ وہ خود اپنے اعمال سے حالات پیدا کریں کہ امامؑ کا ظہور جلد ممکن ہو، مگر جب تک انسانیت مجموعی طور پر اس کے لیے راہ ہموار نہیں کرتی، ظہور میں تاخیر جاری رہتی ہے۔
9. دونوں مکاتبِ فکر کے درمیان مشترک نکات
امام مہدیؑ کا ظہور یقینی ہے: شیعہ اور سنّی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ آخرالزمان میں امام مہدیؑ کا ظہور ہوگا اور وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔نسب رسولؐ: دونوں کہتے ہیں کہ آپؑ اہل بیتؑ میں سے ہیں، یعنی آپؑ کا تعلق حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے ہوگا۔قیامِ عدل: دونوں مکاتب میں وارد روایات اس امر پر زور دیتی ہیں کہ امام مہدیؑ کے ظہور کا مقصد ظلم کو ختم کرنا اور انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔ساتھیوں کی تیاری: بہت سی روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ امام مہدیؑ کے ظہور کے وقت کچھ خاص اصحاب اور مجاہدین آپؑ کی نصرت کے لیے جمع ہوں گے، جن کی تعداد 313 بتائی جاتی ہے (عموماً یہ شیعہ روایات میں ملتا ہے، لیکن سنّی روایات میں بھی اشارہ موجود ہے کہ ایک مخصوص گروہ امامؑ کا ساتھ دے گا)۔مسیحؑ کا نزول: اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ امام مہدیؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے درمیان قریبی ربط ہوگا اور دونوں مل کر دجال کی سرکوبی اور باطل کی شکست کا سبب بنیں گے۔10. امام مہدیؑ کا انتظار اور اس کے اثرات
امام مہدیؑ کا انتظار مسلمانوں کے اندر ایک مثبت قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شیعہ مکتب میں خاص طور پر یہ تصور بہت واضح ہے کہ انتظار صرف ایک انفعالی کیفیت کا نام نہیں، بلکہ ایک تعمیری عمل کا متقاضی ہے۔ منتظرِ امام کو خود کو اخلاقی، علمی، معاشرتی اور عملی طور پر اس قابل بنانا چاہیے کہ جب امامؑ تشریف لائیں تو وہ ان کے آفاقی مشن میں معاون بن سکے۔
انفرادی اصلاح: جب ایک شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ ایک دن ایک مثالی نظام قائم ہونے والا ہے تو وہ خود بھی ظلم و گناہ سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔اجتماعی تعمیر: امام مہدیؑ کے عالمی انقلاب کا ایک مقصد معاشرے کو عدل و انصاف پر استوار کرنا ہے۔ منتظر افراد معاشرے میں عادلانہ نظام کے لیے جدوجہد کرنے پر راغب ہوتے ہیں۔اتحاد بین المسلمین: امام مہدیؑ کا تصور شیعہ اور سنّی دونوں مکاتب میں مشترک ہے، اس لیے یہ عقیدہ امت کے اتحاد کا بھی ایک اہم ذریعہ ہوسکتا ہے۔مظلوموں کی اُمید: تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے مظلوم اور پسماندہ لوگ اسی اعتقاد سے جیتے رہے کہ ایک دن عدل کا سورج طلوع ہوگا اور ظالموں کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔11. خلاصہ اور اختتامی کلمات
امام مہدیؑ کا تصور اسلام کی ان تعلیمات میں سے ہے جو آخری زمانے میں قیامِ عدل، اصلاحِ امت اور نجاتِ بشریت کی نوید دیتے ہیں۔ شیعہ اور سنّی دونوں مکاتب میں اگرچہ جزوی اختلافات اور تشریحی پہلو مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن اس عقیدے کا بنیادی ڈھانچہ دونوں میں مشترک ہے۔ شیعہ اثنا عشری عقیدے کے مطابق امام مہدیؑ بارہویں امام، حضرت امام محمد بن حسن عسکریؑ ہیں، جو ولادت کے بعد پردۂ غیب میں چلے گئے اور خدا کے حکم سے ظہور فرمائیں گے۔ سنّی کتب میں بھی آپؑ کی آمد کی خوشخبریاں موجود ہیں، البتہ یہ سوال کہ آیا آپؑ پیدا ہوچکے ہیں یا ابھی پیدا ہوں گے، اختلافی پہلو رکھتا ہے۔
اس عقیدے میں مسلمان امت کی ایک مشترک اُمید اور مستقبل کا نقشہ ہے۔ ظلم و ناانصافی سے بھری دنیا میں عدل کی بحالی کا یہ خواب ہر حریت پسند انسان کو تحریک دیتا ہے کہ وہ عدل کی جدوجہد جاری رکھے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اور ائمہ اہل بیتؑ کی سیرت، ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کریں جو امام مہدیؑ کے حقیقی منتظرین میں پائے جانے چاہییں۔ یہ انتظار ہمیں فردی اور اجتماعی طور پر نیکی، اخلاق اور عدل کے قیام پر اُبھارتا ہے۔
12. حوالہ جات کی منتخب فہرست
ذیل میں چند اہم کتب اور مصادر کے نام درج کیے جارہے ہیں جہاں سے امام مہدیؑ کے موضوع پر تفصیلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے:
قرآن مجیدخصوصی طور پر سورۂ قصص آیت 5، سورۂ توبہ آیت 33، سورۂ صف آیت 9، سورۂ بقرہ آیت 124، وغیرہ کی تفاسیرکتبِ احادیث (شیعہ)الکافی از شیخ کلینی، جلد 1 (باب الحجة)کمال الدین و تمام النعمہ از شیخ صدوقکتاب الغیبہ از شیخ طوسیالارشاد از شیخ مفیدبحار الانوار از علامہ مجلسی (جلد 51 تا 53)کتبِ احادیث (سنّی)سنان ابی داود (باب المہدی)جامع ترمذی (ابواب الفتن)سنن ابن ماجہ (کتاب الفتن)مسند احمد بن حنبلمستدرک حاکمالصواعق المحرقہ از ابن حجر مکیتفاسیر اور تاریخی کتبتفسیر طبری (امام محمد بن جریر طبری)تفسیر در منثور (امام جلال الدین سیوطی)ینابیع المودۃ (شیخ سلیمان قندوزی حنفی) – اس میں اہل بیتؑ کے فضائل اور مہدیؑ کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔دیگر مصادرمختلف محققین کے مقالہ جات، رسائل اور کتب جو جدید انداز میں امام مہدیؑ کے موضوع کا مطالعہ پیش کرتی ہیں، مثلاً آیت اللہ ابراہیم امینی کی تصانیف، علامہ سید سعادت حسین شاہ کے خطبات اور دیگر محققین کی معاصر تحقیقات۔اختتامی دعا
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں امام مہدیؑ کے حقیقی منتظرین میں شامل فرمائے، ہمارے دلوں میں عدل و انصاف کی محبت پیدا کرے اور ہمیں ہر طرح کے ظلم، ناانصافی اور باطل کی مخالفت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ یقین کہ آخرکار حق کو غلبہ حاصل ہوگا اور عدل کا بول بالا ہوگا، ہر مومن کو مایوسی اور ناامیدی سے بچاتا ہے۔ ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنے حصے کی اصلاحی کوشش جاری رکھیں تاکہ جب وہ وقت آئے تو ہم اس نورانی انقلاب کا حصہ بن سکیں جس کا وعدہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہمیں دیا ہے۔