ام البنین زوجہِ امیر المؤمنین مولا علیؑ علیہ السلام تھیں اور جنابِ عباس بن علیؑ جو کہ میدانِ کربلا میں امام حسینؑ کے لشکر کے علمدار تھے انکی والدہ تھیں،
آپ کا نام فاطمہ بنتِ حزام بن خالد بن ربعیہ بن عامر الکلابی تھا، ام البنین آپکا لقب تھا۔
"ام البنین " کا مطلب ہوتا ہے " بیٹوں کی ماں "
ام البنین کے چار بیٹے تھے ،اور وہ چاروں میدانِ کربلا میں امام حسینؑ کی نصرت کرتے شہید ہوئے،
حضرت ام البنین کے اپنے بیٹوں کے غم میں اکثر اشعار کہا کرتی تھیں ، یہاں تک کہ بقیع میں آپکو غمگین اشعار کہتے ہوئے سن کر دشمنِ اھل بیتؑ مروان بھی چند لمحے ٹھرا اور آپکے بیان سے متاثر ہو کر گریہ کئے بغیر نہ رہ سکا ،
آپ کے اشعار اکثر کتب میں نقل ہوئے ،
آپ کے اشعار کا ترجمہ
" اے وہ شخص جس نے میرے لال عباسؑ کو بڑے لشکر پر اس وقت حملہ کرتے دیکھا جب اس کے پیچھے حیدری شیر اور بھی تھے،
مجھے خبر دی گئی ہے کہ میرے لال کے سر پر اس وقت ضربت لگی جب اسکے ہاتھ قطع ہو چکے تھے، اس ضربت نے میرے لال کو گھوڑے سے گرا دیا
" اے میری بہنوں مجھے ام البنین نہ کہو ، مجھے میرے بیٹے یاد آ جاتے ہیں ، کبھی میرے بیٹے زندہ تھے تو میں ام البنین تھی، اب تو ان میں سے کوئی زندہ بھی نہی رہ گیا ،
ہائے میرے چار شیر ، سب ہی گلا کٹائے پڑے ہوئے ہیں، یہ اس وقت شہید ہوئے جب بھوک اور پیاس نے انکے جوڑ بند تک خشک کر دئیے تھے،
کاش مجھے معلوم ہوتا،
کیا یہ خبر صحیح ہے کہ میرے عباسؑ کے بازو قلم کر دئیے گئے تھے"
تعارف حضرت ام البنین عليہا السلام
جناب فاطمہ بنت حزام بن خالد کلابیہ کی بیٹی تھیں، جو بعد میں ام البنین علیہا السلام کے نام سے معروف ہوگئیں۔
مورخین نے لکھا ہے کہ
حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے بھائی جناب عقیل علیہ السلام سے سے فرمایا :
تم عرب کےنسب شناس ہو؛
میں اپنے بیٹے حسین علیہ السلام کی حفاظت کیلئے ایک اپنا نائب چاہتا ہوں جو میرے حسین علیہ السلام کی مدد کرے ۔
بھائی عقیل علیہ السلام ! کسی بہادر گھرانے کی کوئی خاتون تلاش کرو۔
جب جناب ام البنین سلام الله عليہا کا نام پیش کیا گیا جو شرافت و پاکدامنی اور زہد و تقوی کے اعتبار سے مشہور تھیں، تو أمیرالمؤمنین عليه السلام نے منظور فرمایا، عقد ہوا، جناب ام البنین عليها السلام مولائے کائنات أمیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے گھر تشریف لائیں
جوانان جنت کے سردار حسن و حسین عليهما السلام تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے،
جناب ام البنین عليها السلام نے ہاتھ جوڑ کر کہا:
شہزادو! میں ماں بن کے نہیں ،بلکہ میں تو کنیز بن کر آئی ہوں-
جناب ام البنین عليہا السلام کا بڑا احسان ہے قیام حق پر ۔ چار بیٹے عباس،عبداللہ ، جعفر اورعثمان تھے
ایک پوتا تھا ،پانچ قربانیاں ایک گھر سے-
مروان بن حکم کہتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی۔
میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا۔
میں نے دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہے
میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو بین کے الفاظ یہ تھے۔
عباس !اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسین نہ مارے جاتے-
یہ وہ عظیم بی بی ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام ساتھ کربلا بھیجا اور اپنے ساتھ مدینے میں ایک بھی نہیں رکھے۔اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند سيده زهراء سلام اللہ عليہا کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔
جب انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو فرمایا:
اس خبر سے کیا مراد ہے؟ حسين علیہ السلام کے بارے میں آگاہ کریں،
جب بشیر نے اسے اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبردے دی تو کہا:
میرا دل پھٹ گیا ، میرے تمام بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے موجود ہیں سب حسین علیہ السلام پر قربان ہوں
،مجھے میرے حسین کے بارے میں بتائیں !