شخصیت حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں دانشوروں کی آراء

تاریخ انسانی میں بڑی بڑی ہستیاں اور شخصیات گزری ہیں جنہوں نے تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، لیکن ہر شخصیت کے اندر کوئی نہ کوئی ایک صفت ہوتی جو اسے دوسرے افراد سے ممتاز کرتی تھی، لیکن تاریخ بشریت میں ایک وقت ایک ایسا موڑ بھی آیا، جس نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا، یہ وہ وقت تھا جب اس دنیا میں حامی و ناصر اسلام و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ یعنی حضرت علی  علیہ السلام نے قدم رکھا۔ حضرت علی علیہ السلام اس ہستی اور ذات والا صفات کا نام ہے کہ قلم جس کی توصیف سے عاجز اور ناتوان ہیں، کیونکہ علی ؑ اس فضیلت کا نام ہے کہ جس کی دنیا کے پیمانوں سے پیمایش نہیں کی جاسکتی، طائر فکر انسانی جس قدر بھی اپنی پرواز بلند کرتا ہے، لیکن ذات علی کے سامنے وہ بونا ہی نظر آتا ہے، کیونکہ عقل اور افکار علی کی بے نظیر اور بے مثل ہستی کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اس میں کویی شک اور دو رائے نہیں ہیں کہ پیامبر خاتم  صلی اللہ علیہ وآلہ  کی ذات والا صفات کے بعد بالاتفاق جس ہستی کا مقام اور مرتبہ عظیم الشان ہے، وہ یہی حضرت علی  علیہ السلام ہیں۔ حضرت علی  علیہ السلام ایسی جامع اضداد ہستی کا نام ہے کہ جنکی توصیف اور مدح و ستایش کے لئے دنیا کے نابغہ اور عظیم انسانوں نے ہر دور میں اپنے قلم کو جنبش دی ہے، لیکن اس ذوابعاد ہستی کی کسی نے عرفانی اور معنوی بعد سے توصیف کی تو کسی نے علی کو ایک عظیم اور بے مثال ادیب ہونے کے ناطے سے دیکھا، کسی نے سیاست اور حکومت کے آئینہ سے علی کی شخصیت کو جانچا، کسی نے اپنا زاویہ نگاہ عدالت اور شجاعت علی کی طرف مرکوز رکھا، ان سب قابل قدر کاوشوں کے باوجود کسی نے ذات علی کو بطور کامل و اکمل نہ خود پہچانا اور نہ دوسروں سے روشناس کرایا۔

حضرت علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جنکوں اپنوں اور بیگانوں دونوں نے موضوع بحث بنایا۔ مسلمان مفکرین، دانشوروں، علماء، ادباء اور ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کسی نہ کسی عنوان سے انکی ذات کو محور گفتگو بنایا، لیکن اپنے تو اپنے غیروں نے بھی جب تاریخ کے قرطاس الٹنے اور کتب تاریخ و سیرت کی ورق گردانی شروع کی تو اسلام کی بزرگ ہستیوں میں سے پیامبر رحمت  صلی اللہ علیہ وآلہ  کے بعد جس ہستی نے انکو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، وہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی قدر تھی۔ بہت سے ایسے غیر مسلم اسکالر اور دانشور تھے جو مجبور ہوگئے کہ وہ اس ہستی کا ذکر کریں، بہت سوں نے مستقل کتب تحریر کیں اور بہت سوں نے اپنی کتب کے درمیان انکا ذکر خیر کیا۔ اس تحریر میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ہم تمام غیر مسلم دانشوروں اور مفکرین کے اقوال کو نقل کریں، یہاں ہم اس تحریر کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ چیدہ چیدہ افراد کے اقوال کو حضرت علی  علیہ السلام کے متعلق ذکر کریں گے۔

1۔ حضرت علی  علیہ السلام اور جارج جرداق مسیحی:

جارج جرداق مسیحی حضرت علی کا ایک عیسایی عاشق ہے، اس کا تعلق لبنان سے ہے، اس نے ایک مستقل کتاب ''صوت العدالۃ الانسانیہ'' حضرت علی کے بارے میں تحریر کی ہے،

علی توصیف سے بلند:

جارج جرداق لکھتا ہے کہ حقیقت میں کسی بھی مورخ یا محقق کے لئے چاہے وہ کتنا ہی بڑا زیرک اور دانا کیوں نہ ہو، یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اگر چاہے تو ہزار صفحے بھی تحریر کر دے، لیکن علی جیسی ہستیوں کی کامل تصویر کی عکاسی نہیں کرسکتا، کسی میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ذات علی کو الفاظ کے ذریعے مجسم شکل دے، لہذا ہر وہ کام اور عمل جو حضرت علی نے اپنے خدا کے لئے انجام دیا ہے، وہ ایسا عمل ہے کہ جسے آج تک نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا، اور وہ کارنامے جو انہوں نے انجام دیئے، اس سے بہت زیادہ ہیں کہ جن کو زبان یا قلم سے بیان اور آشکار کیا جائے۔ اس بنا پر ہم جو بھی علی کا عکس یا نقش بناییں گے، وہ یقیناً ناقص اور نامکمل ہوگا۔

دیدار علی علیہ السلام  کی تمنا:

جارج جرداق ایک اور جگہ یوں رقمطراز ہے کہ؛ اے زمانے تم کو کیا ہوجاتا، اگر تم اپنی تمام تواناییوں کو جمع کرتے اور ہر زمانے میں اسی عقل، قلب، زبان، بیان اور شمشیر کے ساتھ علی کا تحفہ ہر زمانے کو دیتے؟ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ میں جب بھی اسکول سے نکلتا یا بہتر ہے یہ کہوں کہ جب بھی اسکول سے فرار کرتا تو شاہ بلوط کے درخت کے نیچے بیٹھ کر قرآن کی سورتوں اور حضرت علی کے خطبات اور کلمات قصار کو حفظ کرتا تھا تو ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ میں نہج البلاغہ (حضرت علی علیہ السلام کے خطبات، خطوط اور کلمات پر مشتمل کتاب) کے بارے میں کچھ تحریر نہ کرتا۔ جارج جرداق معروف یورپی فلسقی کار لایل سے متعلق لکھتا ہے کہ کار لایل جب بھی اسلام سے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہے تو فوراً اسکا ذہن علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی جانب راغب ہوجاتا ہے، حضرت علی  علیہ السلام کی ذات اسکو ایک ایسے ہیجان، عشق اور گہرایی میں لے جاتی ہے کہ جس سے اسے ایسی طاقت ملتی ہے کہ وہ خشک علمی مباحث سے نکل کر آسمان شعر میں پرواز شروع کر دیتا ہے اور یہاں اسکے قلم سے علی کی شجاعت کے قصے آبشار کی طرح جھرنے لگتے ہیں، اسی طرح کی کیفیت باروین کاراڈیفو کے ساتھ بھی پیش آتی ہے، وہ بھی جب کبھی علی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے تو اس کی رگوں میں حماسی خون دوڑنے لگتا ہے اور اسکے محققانہ قلم سے شاعری پھوٹنے لگتی ہے اور جوش اور ولولہ اسکی تحریر سے ٹپکنے لگتا ہے۔

2۔ جبران خلیل جبران

جبران خلیل جبران بھی ایک لبنانی عیسایی ہے، یہ بارہ سال کی عمر میں آمریکا ہجرت کر گیا، اس نے دو زبانوں عربی اور انگلش میں شاہکار کتابیں تحریر کی ہیں، یہ شخص بھی حضرت علی کے عاشقوں میں سے ہے۔ اسکے آثار میں یہ چیز نظر آتی ہے کہ وہ جب بھی دنیا کی عظیم ہستیوں کا ذکر کرتا ہے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت علی  علیہ السلام کا نام لیتا ہے۔ جبران خلیل جبران لکھتا ہے کہ علی ابن ابیطالب دنیا سے اس حالت میں چلے گئے کہ انکی اپنی عظمت و جلالت انکی شھادت کا سبب بنی۔ علی نے اس دنیا سے اس حالت مین آنکھیں بند کیں، جب انکے لبوں پر نماز کا زمزمہ تھا، انہوں نے بڑے شوق و رغبت اور عشق سے اپنے پروردگار کی طرف رخت سفر باندھا، عربوں نے اس شخصیت کے حقیقی مقام کو نہ پہچانا، لیکن عجمیوں نے جو عربوں کی ہمسائیگی میں رہتے تھے، جو پتھروں اور سنگ ریزوں سے جواہرات جدا کرنے کا ہنر جانتے تھے، کسی حد تک اس ہستی کی معرفت حاصل کی۔

علی ہمسایہ خدا:

جبران خلیل جبران ایک جگہ تحریر کرتا ہے کہ میں آج تک دنیا کے اس راز کو نہ سمجھ پایا کہ کیوں بعض لوگ اپنے زمانے سے بہت آگے ہوتے ہیں، ''میرے عقیدے کے مطابق علی ابن ابی طالب اس زمانے کے نہیں تھے، وہ زمانہ علی کا قدر شناس نہیں تھا، علی اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہوگئے تھے۔ مزید لکھتا ہے کہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ علی ابن ابی طالب عربوں میں وہ پہلے شخص تھے، جو اس کاینات کی کلی روح کے ساتھ تھے، یعنی خدا کے ہمسایہ تھے اور علی وہ ہستی تھے جو اپنی راتوں کو اس روح کلی عالم کے ساتھ گزارتے تھے۔

3۔ علی عظیم سورما:

معروف مسیحی دانشور کارا ڈیفو لکھتا ہے کہ: حضرت علی علیہ السلام وہ دردمند اور خونین دل سورما اور وہ نقاب پوش سوار اور شھید امام ہے کہ کہ جسکی روح بہت عمیق اور بلند ہے، علی وہ بلند قامت سورما تھا، جو رکاب پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ میں لڑتا تھا اور جس نے کامیابیاں اور کامرانیاں اسلام کے حصے میں ڈالیں، جنگ بدر میں کہ جب حضرت علی علیہ السلام کی عمر فقط بیس سال تھی، ایک ضربت سے قریش کے ایک سوار کے دو ٹکڑے کر دیئے، جنگ احد میں ذوالفقار سے جنگ کی اور زرہوں اور سپروں کے سینے چاک کرکے حملے کئے، قلعہ خیبر پر حملہ کیا تو اپنے طاقتور ہاتھوں سے اس سنگین لوہے کے دروازے کو اکھاڑ کر اپنی ڈھال بنا لیا۔ پیامبر  صلی اللہ علیہ وآلہ  کو ان سے شدید محبت تھی اور وہ انکے اوپر مکمل اعتماد کرتے تھے۔

4۔ حضرت علی علیہ السلام حق پرستوں کے فطری راہنما:

مشہور برطانوی فلسفی توماس کارلایل رقمطراز ہے کہ؛ ہمارا اس کے علاوہ کوئی اور وظیفہ نہیں ہے کہ علی سے محبت اور عشق کریں، کیونکہ وہ ایک جوانمرد اور عالی نفس انسان تھا، علی وہ ہستی تھی کہ جسکے وجدان سے مہر و محبت اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے ہیں، جسکے وجود سے طاقت اور شجاعت کے نغمے بلند ہوتے ہیں، جو شیر سے زیادہ شجاع ہے، لیکن اسکی شجاعت بے مہار نہیں تھی، اسکی شجاعت محبت، عزت اور نرم دلی سے لبریز تھی۔ علی کو کوفے میں مکاری، فریب اور نامردی سے قتل کیا گیا، وہ اپنی شدید عادلانہ زندگی کی وجہ سے شھید کر دیئے گئے۔ علی نے خود اپنی شجاعت سے متعلق فرمایا ہے کہ اگر تمام عرب مجھ سے جنگ کرنے آجاییں، تب بھی میں میدان سے فرار نہیں کروں گا، اور لوگوں کی محبت اور دوستی کے متعلق فرمایا کہ؛ کیا میں صرف اسی بات پر قانع ہو جاوں کہ لوگ مجھے امیرالمومنین کہتے ہیں اور لوگوں کی سختیوں اور مشکلات میں انکا ساتھ نہ دوں۔

5۔ حضرت علی علیہ السلام اسوہ دین داری:

ہاں میں ایک مسیحی ہوں، لیکن میری آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور میں تنگ نظر نہیں ہوں، میں ایک مسیحی ہوں کہ ایک بزرگ شخصیت کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ جس کے بارے میں مسلمان کہتے ہیں کہ اللہ اس سے راضی ہے اور صدق و صفا اسکے ساتھ ہے۔ عیسایی اپنے اجتماعات میں اسکا ذکر کرتے ہیں اور اسکی تعلیمات سے درس لیتے ہیں اور اسکی دین داری کی پیروی کرتے ہیں، خدا کے بندے کوشش کرتے ہیں کہ اسکی طرح خدائے واحد کی پرستش کریں اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جس راستے کو اس نے طے کیا ہے اسکو طے کریں، تاکہ وہ یہ ریاضت کرکے اپنی نفس کشی کرکے اس مقام کمال کو پالیں، جسے اس نے حاصل کر لیا ہے۔ علی نے کمالات کے اس آسمان پر کمندیں ڈالی ہیں کہ جہاں ایک دانشور اس کو آسمان علم و ادب کا ایک ستارہ سمجھتا ہے، ایک بڑا لکھاری اس کے طرز نگارش کی پیروی کرتا ہے اور ایک فقیہ اسکی تحقیات پر تکیہ کرتا ہے۔ اس میں کویی شک نہیں کہ تاریخ میں اور بھی بزرگ شخصیات گزری ہیں لیکن علی ان سب سے بلند مرتبہ ہے، علی اپنی عدالت میں انصاف کرتے وقت کسی استثناء کے قایل نہ ہوتے اور برابری کی بنیاد پر جو حکم ہوتا، اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے، علی کی نظر میں غلام اور آقا سب مساوی تھے، علی یتیموں اور محروموں کو دیکھ کر غمگین ہوتے اور عجیب و غریب حالت ان پر طاری ہوجاتی، علی اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ لوگ کسطرح دنیا کی چکا چوند سے متاثر ہو رہے ہیں، وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے کہ لوگ کسطرح دنیا کے جھوٹے سرابوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، وہ اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ لوگ جس چیز کی طرف متوجہ ہیں، وہ محض ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

بہت کم لوگ ہیں جو معنویت اور روح حقیقی کی طرف توجہ رکھتے ہیں، لوگوں کی اکثریت ہمیشہ مادیات کے پیچھے بھاگتی رہتی ہے، ان راتوں میں جب میں دکھ اور تکلیف میں ہوتا تھا، میرے افکار اور تخیلات مجھے ماضی کی جانب کھینچنے لگے، امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام مجھے یاد آنے لگے، میں کافی دیر تک گریہ کرتا رہا اور پھر میں نے کچھ اشعار ''علی و حسین'' کے بارے میں سپرد قرطاس کئے۔ اے داماد پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ  آپ کی شخصیت ان ستاروں کے مدار سے بلند ہے، یہ نور کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ پاک اور منزہ باقی رہتا ہے، جسکو زمانے کا گرد و غبار میلا اور داغ دار نہیں کرسکتا، اور جو کوئی شخصیت کے لحاظ سے ثروتمند ہے، وہ کبھی فقیر نہیں ہوسکتا، اے شھید راہ دین و ایمان، آپ نے مسکراتے لبوں کے ساتھ دنیا کے دردوں اور مشقتوں کو قبول کیا، اے ادب و سخن کے استاد، آپ کا شیوہ گفتار اور طرز تکلم اس سمندر کی طرح ہے کہ جس کی وسعتوں اور گہراییوں میں روحیں ایک دوسرے سے ملاقات کرتی ہیں۔ ہاں؛ زمانہ بوڑھا ہو جائے گا، لیکن علی کا نام چمکتی صبح کی طرح ہمیشہ قائم و دائم رہے گا، ہر روز تمام زمانوں اور صدیوں میں علی کا نام صبح کی سفیدی اور نور کی طرح تمام بشریت کے چہرے پر چمکتا اور دمکتا رہے گا اور ہر روز طلوع کرے گا۔ (ڈاکٹر پولس سلامہ معروف عیسایی ادیب، محقق اور ماہر قانون)

6۔ علی اور اصولوں پر اصرار:

معروف مسیحی میڈم ڈیلفای رقمطراز ہیں کہ؛ علی فیصلوں کے وقت انتہائی درجے تک عادلانہ فیصلے کرتے تھے، علی قوانین الہی کے اجرا میں سختی سے کام لیتے تھے، علی وہ ہستی ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت جنکے تمام اعمال اور رفتار بہت ہی منصفانہ ہوتی تھی، علی وہ ہیں کہ جنکی دھمکی اور خوشخبری قطعی ہوتی تھی۔ پھر لکھتی ہیں اے میری آنکھوں گریہ کرو اور اپنے اشکوں کو میرے آہ و فغاں کے ساتھ اولاد پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ  کے لئے شامل کرو کہ انہیں کسطرح مظلومانہ طریقے سے شھید کردیا گیا۔

منسلکات