اگر موت ہی مقدر تھی تو قاتل کا محاسبہ کیوں؟

کچھ لوگوں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ کار حادثات، جان بوجھ کر قتل وغیرہ۔ کیا ان حادثات کے سبب سے موت کے مقدر وقت کے درمیان تقدیم و تاخیر ؟ کیا یہ سب انسان پر لکھے گئے ہیں؟ اور اگر لکھا ہے تو قاتل کا احتساب کیسے ہو گا کہ اس نے کیونکر قتل کیا؟

مورد اول

ہر انسان کے لئے دو قسم کی اموات ہیں

حتمی موت

موقوف موت

حتمی موت ایسی موت ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے کہ اس میں کسی قسم کی کمی و بیشی اور تقدیم وتاخیر نہیں ہے اور اس بات پر دلیل اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید

پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر وتقدیم بھی نہیں ہوتی

سورہ اعراف 34

اس آیت کریمہ میں جس موت کا ذکر ہوا ہے وہ ایک حتمی موت ہے

جب کہ موقوف موت ایسی موت ہے کہ جو کہ لوح محفوظ میں درج ہے لیکن اس علم کے ساتھ کہ یہ قابل تبدیل و تغییر ہے

اور موت کی اس قسم پر بھی آیات و احادیث موجود ہیں

وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر تمہارے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کردی ‘ اور ایک دوسری مدت اور بھی ہے جو اس کے ہاں طے شدہ ہے ، مگر تم لوگ ہو جو شک میں پڑے ہوئے ہو ۔

سورہ انعام 2

اور کلینی نقل کرتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے قضاء کے بارے سوال کیا گیا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا حتمی موت اور موقوف موت

العیاشی میں روایت ہے کہ حضرت ابوعبد اللہ علیہ السلام قضاء کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حتمی موت اور موقوف موت

پہلی اصطلاح وہ ہے جو کہ ملائکہ ، رسل اور انبیاء کو دی گئی تھی جبکہ دوسری اصطلاح مخلوقات سے پنہاں ہے

اس کے علاوہ بھی دیگر روایات میں منقول ہے ۔

اللہ نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر نطفہ سے ، پھر تمہارے جوڑے بنا دئیے (یعنی مرد اور عورت) کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا۔ اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے ۔ اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے ۔

اس آیت کریمہ کی دلالت سے عمر میں کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے

منسلکات