یقیناً احکام الہی کی پابندی ہے اجرو ثواب اخروی حاصل ہوگا لیکن یہ ثواب اطاعت کا ہے چونکہ بندہ مومن نے احکام الٰہی کی پابندی کی اس کا ثواب اللہ آخرت میں دے گا جو مختلف عبادتوں کیلئے الگ الگ معین ہے لیکن نگاہ قدرت میں ان احکام کی غرض اخروی ثواب نہیں بلکہ اس نے تو جو حکم دیئے ہیں وہ انسان کی دینوی زندگی کے منافع و مصالح کا لحاظ رکھتے ہوئے دیئے ہیں۔
لہذا اگر یہ کہا جائے کہ واقعات کربلا اور مجالس عزا سے سبق لیکر انسان کو اپنی زندگی سنوارنا چاہئے۔ اپنے اخلاق و کردار کو درست کرنا چاہئے شہدائے کربلا کی سیرت کو اپنانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ تو اس کو کوئی نئی بات یانیا تخیل نہ سمجھنا چاہئے یقیناً اہلبیت عظام کی روایات موجود ہیں ”من جلس مجلسا یحی فیہ ذکرنا لسمہ یمت قلبہ یوم تموت فید القلوب“ جو شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جسمیں ہمارا ذکر زندہ کیا جائے تو اس کا دل اس دن جب تمام دل مردہ ہونگے مردہ نہ ہوگا۔
جن احادیث میں فضائل گریہ بیان کی گئی ہیں ان سے انکار ممکن نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ تمام ثواب تو نتیجہ اطاعت حکم امام علیہ السلام میں ملیں گے۔ معصوم علیہ السلام نے ذکر واقعات کربلا اور مصائب امام حسین علیہ السلام پر حکم ہی کیوں فرمایا ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے۔ شریعت کے حکم کا مقصد ثواب اخروی نہیں ہوسکتا اب وہ مقصد کیا ہے جس کے پیش نظریہ احکام دیئے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ جب کربلا کے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں تو ان سے ہمیں ایسا درس ملتا ہے جس سے ہم اپنی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے اخلاق و کردار کو اس سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔ جو ایک سچے مومن اور مسلمان کا ہونا چاہئے۔ کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ اہلبیت علیہ السلام تو معصوم تھے۔ امام حسین علیہ السلام تو امام تھے ہم معصوم کیا امام تو نہیں ان کی پیروی کیونکر کر سکتے ہیں لیکن قرآن کی تصریح ہے کہ خدا کسی کے اوپر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا۔ جو اس کی برداشت سے باہر ہو اگر معصوم کی پیروی غیر معصوم کیلئے ممکن نہ ہوتی تو اللہ کبھی تمام مسلمانوں کو اتباع رسول کا حکم نہ دیتا۔ پھر کربلا کے آئینہ میں تو معصوم کی پیروی میں کچھ غیر معصوم محبان کی زندگیاں بھی ہمارے سامنے مشعل راہ بن کر آتی ہیں کیا کسی نے بھی جناب حبیب ابن مظاہر‘ جناب مسلم ابن عوسجہ اور جناب زہیر قین اور دوسرے افراد کے متعلق عصمت کا دعوی کیا ہے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ آنے والوں میں صرف ہاشمی و مطلبی ہی نہیں صرف قریشی ہی نہیں صرف عرب ہی نہیں بلکہ روم و حبش کے رہنے والے بھی شامل تھے تقریباً ہرسن کے جوان بوڑھے اوربچے موجود تھے مرد بھی تھے عورتیں بھی تھیں لیکن ان میں سے جس کو بھی دیکھے وہ ایک بے مثال واقعہ کربلا سے بڑھ کر ملتی ہے؟ کیا اللہ کی عبادت کو کسی حال میں ترک نہ کرنے کا نمونہ یہاں سے بہتر حاصل کیا جاسکتا ہے؟ کیا آپس میں اخوت و ہمدردی و مساوات کا جذبہ اس سے زیادہ کامل ڈھونڈا جاسکتا ہے؟ کیا سچائی پر جم جانے اور صداقت سے سرو قدم نہ ہٹانے کی مثال یہاں سے بہتر کہیں پائی جاسکتی ہے؟ کیا ایثار و قربانی کے نمونے کربلا سے بہتر کہیں ملیں گے؟ کیابڑی سے بڑی مصیبت کو برداشت کرنے اور صبرو استقلال میں فرق نہ آنے کا کربلا سے بڑھ کر کوئی واقعہ پیش کیا جاسکتا ہے؟ کیا امام کی اطاعت اور فرمانبرداری کو ہر شے پر مقدم کر دینے کی مثال یہاں سے بڑھ کر کہیں مل سکتی ہے؟ غرض کربلا کی ایک تصویر ہے جس کے ہزاروں رنگ نمایاں ہیں کربلا ایک پھول نہیں بلکہ گلدستہ ہے گلدستہ نہیں بلکہ ایک چمن ہے جس میں اخلاق و کردار کے گلہائے رنگارنگ کے مختلف تختے کھلے ہیں اور ہر ایک اپنے رنگ و بو میں لا جواب و بے مثال ہے یہ تصور بالکل غلط ہے کہ امام حسین علیہ السلام ہمارے لیے نجات کا وسیلہ قرار پائے جیسے عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلامکے متعلق فدیہ کا تصور رکھتے ہیں یعنی ہم دعوی محبت امام حسین علیہ السلام کے بعد بالکل آزاد کردیئے گئے ہیں کہ جو چاہے بد اخلاقی کریں ا ور برائی کریں دوسروں پر ظلم کریں ان کے حقوق غصب کریں احکام اسلامی کوپیروں سے روندیں لیکن جنت کا ٹھکانہ ہمارے نام لکھ دیا گیا ہے یقیناً امام حسین علیہ السلام ذریعہ نجات ہیں۔ بلاشبہ امام حسین علیہ السلام وسیلہ بخش ہیں اسی طرح جس طرح حضرت حرُ کو جہنم سے نجات دیکر جنت کا مستحق بنا دیا یعنی صرف زبان سے دعویٰ محبت نہ کیا جائے بلکہ عمل و کردار سے بھی حسینی بننے کی کوشش کی جائے ۔