اس بات سے غض نظر کہ آپ علیہ السلام ایک انتہائی اعلیٰ واقدس و اطہر خانوادہ سے ہیں مگر خود حضرت امام حسین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : میں خودپسندی و گردن کُشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نہیں نکلا ہوں میں تو صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں ۔ میں نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا ارادہ کیا ہے ۔میں اپنے جد اور اپنے باپ علی بن ابی طالب کی سیرت پر چل رہا ہوں ۔
بلا شک حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اس ارشاد میں ادیان سماوی کو سمو دیا ہے اور ایک عظیم پیغام دیا ہے اور اقدار اور نظریات کی نمائندگی کی ایک بہت بڑی میراث چھوڑی ہے جنہیں گذشتہ انبیاء پہنچا گئے تھے اور آپ علیہ السلام کا کردار اس عدو کے مقابلہ تھا جس نے ہر طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے ان اصولوں کو مٹانا تھا اور اس پیغام کو محو کرنا تھا اور امت محمدیہ کا ہر بیدار ضمیرکو قتل کرنا تھا ۔
بے شک ظلم و جور اس وقت پھیل چکا تھا اور یہ ہے قریش کا اشرافیہ ، اس کی جہالت اور اس کا طبقہ معاویہ کے ہاتھوں ایک بار پھر لوٹ آیا اور اپنے بیٹے یزید کے دور میں اسلام میں کھلے کفر کا رجحان، تاکہ بلاد اسلامیہ لوہے آگ اور فساد کی کرپشن تلے دب جائیں اور اسی گمراہ کن اموی قیادت کے سامنے اخلاقی اقدار اپنے ادنیٰ درجے پر پہنچ گئے ۔
جب اموی حکومت نے اسلامی سلطنت پر اپنے پنجے مضبوط کئے تو تاریخ کی تاریکی میں چھپی جاہلیت نے دوبارہ سراٹھانا شروع کیا یہاں تک معاویہ جناب حمزہ کی قبر اقدس پر اہانت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے ابا عمارہ جس امر پر ہماری لڑائی تھی آج وہ ہمارے کمسنوں کے ہاتھ میں ہے
اترك تعليق