السلام علیک یا سیدی یا سلطان العرب والعجم

آپ کا اسم مبارک علی بن معسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین ابن علی ابن ابیطالب بن عبدالمطلب بن ھاشم ہے ۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے المرتضی ،رؤوف ، سلطان العرب والعجم ہیں اور آپؑ کی کنیت ابوالحسن ہے ۔

آپؑ کی والدہ ماجدہ سیدہ تکتم ہیں اور ان کی کنیت ام البنین سلام اللہ علیہا ہے ۔

11 ذی الحجہ 148ھ بروز جمعرات امام رضا علیہ السلام کی مدینہ منورہ میں آمد ہوئی ۔

آپ ؑ کی مدت امامت 21 سال تھی جس کی ابتداء 25 رجب المرجب تا ماہ صفر 203ھ تھی ۔

آپ کی انگوٹھی پر ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ ، حسبی اللہ تحریر تھا۔

آپ کے حرم میں سیدہ سبیکہ کہ جن کی کنیت ام الحسن سلام اللہ علیہا تھا ۔

مختلف روایات میں آپ کی اولاد کہ جن میں چار بیٹے اور ایک دختر کا ذکر ہے لیکن صحیح روایات میں فقط حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ ہی کہا جاتا ہے کہ آپ ؑ کی ایک دختر جن کا نام فاطمہ تھا ۔

داؤود الرقی حضرت امام موسیٰ الکاظم علیہ السلام کے پاس تشریف فرما تھے اور سوال کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ ؑ بزرگوار ہیں اور مجھے خوف ہے کہ آپ ؑ کو کچھ ہو نہ جائے تو اس صورت میں آپ سے کیسے ملاقات ہوگی ؟

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا میرے بیٹے علی ؑ سے ملنا ۔

آپ علیہ السلام کا سفر بہ خراسان تاریخ میں کچھ یوں ملتا ہے کہ 200ھ میں مامون بن ہارون رشید نے رجاء بن ضحاک جو کہ فضل بن سھل کے اقرباء میں سے تھا کو حضرت امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان لے آنے کا حکم دیا جس کے لئے منصوبہ بندی خود مامون کے دربار سے کی گئی تھی کہ انہیں بصرہ کے راستے لایا جائے تاکہ ایسا نہ ہوکہ ایسے راستے جہاں محبان اہلبیت علیہم السلام بستے ہوں ان علاقوں سے دور رکھا جائے کتاب اطلس الشیعۃ میں آپ علیہ السلام کے قافلے  کی حرکت کا راستہ کچھ یوں تھا ۔

مدینہ – نقرۃ- ھوسجۃ – نباج – حفر ابی موسیٰ  - البصرہ – اھواز – بھبھان – اصطخر – ابرکوہ – دہ شیر(فراشاہ) – یزد – خرانق – رباط بشت بام – نیشاپور – قدم گاہ – دہ سرخ – طوس – سرخس اور وہاں سے مرو لایا گیا ۔

اس طویل راستے میں سب سے اہم واقعہ شہر نیشاپور میں حدیث سلسلہ الذھب ہے ۔

لا إلهَ إلَّا اللّهُ حِصنی، فَمَن دَخَلَ حِصنی أمِنَ مِن عَذابی

لا الہ الاّ اللہ میرا قلعہ ہے، جو میرے قلعہ میں داخل ہو جائے گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہےگا

اور جونہی سواری تھوڑی آگے چلی تو آپ علیہ السلام نے دوبارہ فرمایا

 بِشُروطِها، و أنَا مِن شُروطِها

لیکن شرائط کے ساتھ اور میں اسکی شرط ہوں

مامون الرشید نے اپنے ایک غلام عبداللہ بن بشیر کو حضرت امام رضا علیہ السلام کو انگوروں اور انار کے دانوں میں زہر دینے کا حکم دیا اور کہا کہ زہر کو اپنے ناخن کے نیچے رکھے اور وہاں سے ہتھیلی میں اور جب امام علیہ السلام تناول فرمانے لگیں اس وقت شامل کر دے  تاکہ محفل میں اس پر کوئی آنچ نہ آئے اور اس پر قتل کاالزام نہ لگایا جاسکے ،

جب امام علیہ السلام کو انار و انگور پیش کئے تو امام علیہ السلام نے منع فرمایا مگر مامون نے شدید اصرار کیا جس پر آپ نے تین دانے تناول فرمائے اور محفل سے اٹھ کر جانے لگے تو مامون نے پوچھا اے چچا زاد کہاں جارہے ہو فرماتے ہیں اسی طرف جہاں تم نے ہمیں بھیجنے کا انتظام کیا ہے  ۔

یہاں تک کہ دو دن بعد اس زہر کی وجہ سے حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت ہوگئی ۔

منسلکات