26جمادی الثانی 1441ھ بمطابق 21 فروری 2020ء کو نماز جمعہ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مطہر حضرت عباس علیہ السلام کے متولی علامہ سید احمد صافی کی امامت میں کی گئی جس کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
آپ جانتے ہیں کہ امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی زندگی کا ایک حصہ فتنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرا جبکہ ایک حصہ امت کی رہنمائی میں کرتے گزر گیا ہمیں حضرت علی علیہ السلام کی زندگی اور ان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ تعلق کے بارے میں جاننا چاہئے حضرت علی علیہ السلام پہ ایک ایسا زمانہ بھی آیا جو مکمل طور پر فتنوں سے بھرا ہوا تھا اسی دران حارث نامی ایک شخص ان کے پاس آیا حارث ابن حوط نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ کیا آپ کے خیال میں مجھے اس کا گمان بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب جمل گمراہ تھے؟ حضرت نے فرمایا کہ اے حارث!تم دھوکے میں ہو، حق اور باطل لوگوں سے نہیں جانا جاتا، تم پہلے حق کو پہنچانو اہل حق کو جان لو گے اور باطل کی پہنچان کرو اہل باطل کو جان لو گے، تم نے نیچے کی طرف دیکھا اوپر کی طرف نگاہ نہیں ڈالی، جس کے نتیجہ میں تم حیران و سر گردان ہوگئے ہو، تم حق ہی کو نہیں جانتے کہ حق والوں کو جانو اور باطل ہی کو نہیں پہچانتے کہ باطل کی راہ پر چلنے والوں کو پہچانو۔ مولا کے اس فرمان کا تعلق اللہ کے اس حکم سے ہے (اور اس کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں ہے کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے باز پرس ہو گی)۔ مولا بتانا چاہتے ہیں کہ جب آپ کوئی فیصلہ کرتے ہیں یا کسی بات پر اعتقاد و یقین کرتے ہیں تو وہ کون سی چیز ہے جس کی بنیاد پر آپ اپنی بات سے متزلزل نہیں ہوں گے؟ کسی بھی معاملہ میں صحیح رائے قائم کرنے اور حق و باطل میں تمیز کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے بیان کردہ میزان کو اپنانا ہو گا۔ یہ بات مخفی نہیں ہے کہ کورونا کے نام سے جانا جانے والے وائرس صحت کی صورتحال کے لیے پوری دنیا میں خطرہ بنا ہوا ہے خدا سے دعا ہے کہ وہ لوگوں اور شہروں کو اس سے محفوظ رکھے۔ متعلقہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اس کے خطرات، علاج اور بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کریں، اور اس آگاہی مہم کا دائرہ تمام لوگوں تک عمومی ثقافت کے طور پر پھیلائیں، اور یہ ذمہ داری محکمہ صحت کے کاندھوں پہ عائد ہوتی ہے۔ یہاں صحت کے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے حقیقی اور بنیادی حلول کا ہونا ضروری ہے۔ جب کوئی شخص حقیقت کا سامنا کرتا ہے تو بہتر یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے اصل مسئلہ کا تعین کرے اور پھر اس کو حل کرنا شروع کرے۔ ہمیں جس تیاری کی ضرورت ہے اس کا اس خطرے کی سطح کے برابر ہونا ضروری ہے، ہم خداتعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ یہ بیماری ہم تک نہ آئے لہذا توجہ دی جانی چاہئے اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور اسی لیے ہم تمام متعلقہ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ذمہ داری کا ثبوت دیں اور جتنا ممکن ہو سکے اپنی صلاحیتوں کو بڑھائیں تاکہ اس خطرہ سے ممالک اور لوگوں کو بچایا جا سکے۔
اترك تعليق