مظاہرین و امن و امان بحال کرنے والے طرفین کے لئے خصوصی ہدایات

11ربیع الاول 1441ھ بمطابق 8نومبر 2019ء کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی ۔

جس کے خطبہ جمعہ میں آيت الله العظمى سيّد علی حسینی سيستانی (دام ظلّه الوارف) کے نجف اشرف میں قائم دفتر کی طرف سے ہم تک پہنچنے والا بیان پڑھنا چاہتا ہوں کہ جس میں انھوں نے کہا ہے: بسم الله الرحمن الرحيم اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے عوامی مظاہرے ایک سے زیادہ جگہوں پر جاری ہیں ان مظاہروں میں عراقیوں کی صفات حمیدہ کی عکاسی کرتی بہت سی صورتیں ابھر کر سامنے آئيں ہیں کہ جن میں ان کی شجاعت، ایثار، صبر، ثابت قدمی، یکجہتی اور ایک دوسرے سے رحمدلی واضح دکھائی دیتی ہے، آج ہم اس پہلے گروہ کا خاص طور پر ذکر کریں گے کہ جس میں شامل ہمارے پیاروں نے چالیس دن پہلے اس اصلاحی تحریک کے آغاز میں اپنے پاک خون سے غلطاں ہوئے اللہ ان کی پاک روحوں پر رحمت نازل کرے، ہم ایک پھر سے ان کے قاتلوں کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور زخمیوں کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں۔ کچھ نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں: 1۔ صاحب اقتدار سیاسی قوتوں کے پاس مقررہ مدت میں متفقہ روڈ میپ کے مطابق عوام کے مطالبات کو پورا کرنے کا یہی ایک آخری موقع ہے لہذا حکومت بدعنوانی، مکروہ کوٹا سسٹم و بے قاعدہ تقرریوں اور معاشرے میں انصاف کی عدم موجودگی کے اس طویل دور کے سامنے بند باندھے، حکومت کے لیے اس حوالے سے مزید سستی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس سے ملک کو بہت بڑا خطرہ گھیر لے گا۔ 2۔ مظاہروں کو مختلف حوالوں سےپرامن رکھنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس سلسلہ میں بڑی ذمہ داری سیکورٹی فورسز کی ہے کہ وہ سختی سے اجتناب کریں خاص طور پر پرامن مظاہرین سے حد سے زیادت شدت و سختی سے پیش آنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس کے نتائج بھی بہت برے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ مظاہرین کی اکثریت پرامن ہے اور وہ سیکورٹی فورسز اور نجی و سرکاری املاک سے تعرض بھی نہیں کرتی، البتہ کچھ افراد ابھی تک اس قسم کی حرکات کر رہے ہیں کہ جنھیں روکنا بہت ضروری ہے تاکہ مظاہروں کا منظر غلط حرکات کی عکاسی نہ کرے ۔ 3۔ اپنی رائے کے اظہار اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے پرامن مظاہرہ ہر عراقی کا حق ہے جس کا جی چاہے اس مظاہرے میں شریک ہو اور جس کا دل نہ چاہے وہ شریک نہ ہو کوئی بھی کسی دوسرے فرد کو اپنے مرضی پر مجبور نہیں کر سکتا لہذا اختلاف رائے کی بنیاد پر مظاہرے میں شرکت یا عدم شرکت عوام میں ایک دوسرے پر الزام تراشی مناسب نہیں ہے بلکہ ضروری ہے ہر ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں اور اسے اس کے اختیار میں معذور قرار دے۔ 4۔ ماضی میں عراق کو جو بھی نقصان ہوا اس میں ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کے تدخل کا بہت بڑا کردار رہا ہے جس کی وجہ سے عراقی عوام شدید ترین مشکلات و مصائب سے دوچار ہوئے، آج پھر ان فریقوں کی کوشش ہے کہ وہ اس احتجاجی تحریک کو اپنے بعض اہداف کے حصول کے لیے استعمال کریں لہذا مظاہروں میں شرکت کرنے والے اور شرکت نہ کرنے والے تمام افراد کا فرض ہے کہ وہ ان اطراف سے بہت زیادہ خبردار رہیں تاکہ وہ اس جمع میں رخنہ ڈال کر یا کسی بھی طریقے سے اس اصلاحی تحریک کا رخ نہ پھیر سکیں۔ 5۔عراقی عوام، عراقی سرزمین اور عراقی مقدسات کا دفاع کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز اور ان کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف جنگ کرنے والے رضاکاروں کا سب پر بہت بڑا احسان ہے خاص طور پر وہ جوان جو ابھی تک بارڈرز اور اس سے ملحقہ حساس مقامات پر تعینات ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ہم ان کے اس احسان کو نہ بھولیں، ان کی سماعتوں تک کسی بھی ایسی بات کا پہنچنا جائز نہیں ہے جو ان کی قربانیوں کی قدر و منزلت میں تنقیص کا باعث بنے، بلکہ آج بھی دہشت گردوں کی کاروائیوں سے محفوظ جو یہ پرامن مظاہرے اور دھرنے ہو رہے ہیں وہ ان بہادر جوانوں کے مرہون منت ہیں لہذا ہر احترام اور تقدیر انہی کے لیے ہے۔  

منسلکات