13ربیع الثانی 1440ھ بمطابق 21 دسمبر 2018ء نماز جمعہ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبد المہدی الکربلائی کی امامت میں ادا کی گئی جس کے خطبہ جمعہ میں معاشرتی بے راہ روی اور ان کے سدباب کو موضوع سخن قرار دیا۔
ان اجتماعی عادات و ظواہر کے بارے میں جو معاشرے کے اخلاقی نیٹ ورک کے لیے خطرہ ہیں، ان خطرناک ظواہر میں سے شدت پسندی اور سخت گیری اور شخصی مفادات کو عوامی مفادت پر ترجیح دینا ہے اس عادت کے میدان کار اور آثار کو بیان کریں گے اور بتائيں گے کہ یہ عادت تمام لوگوں کے ساتھ اپنے مفہوم اور تطبیق کے حوالے سے کیا کرتی ہے۔ ہمارے کچھ شخصی مفادات ہیں اور کچھ مفاداتِ ہیں جو معاشرے کے لیے بہت اہم ہیں، بعض اوقات ہم کسی بھی شہری کے بارے میں اس کی انفرادی حیثیت کے حوالے سے بات کرتے ہیں چاہے وہ کسی بھی جگہ کام کر رہا ہے خواہ وہ عام شہری ہے، خواہ وہ ملازم ہے، خواہ وہ انجینئر ہے، خواہ وہ ڈاکٹر ہے.... اور بعض اوقات ہم کسی شعبہ و ڈھانچے کے بارے میں بارے میں بات کرتے ہیں چاہے وہ شعبہ و ڈھانچہ قبائلی ہو، یا چاہے وہ شعبہ و ڈھانچہ مذہبی ہو، یا چاہے وہ شعبہ و ڈھانچہ دینی ہو، یا چاہے وہ شعبہ و ڈھانچہ سیاسی ہو.... یہ دونوں اس مسئلہ میں مورد بحث ہیں، شخصی مفادات کو عوامی مفادت پر ترجیح دینا ایک ایسی جبلت یا خصلت ہے جو خود پسندی سے وجود میں آتی ہے ویسے تو اس فطرتی خصلت کا انسان کے اندر کسی حد تک ہونا اچھا ہے کیونکہ اسی سے انسان کے اندر ارادہ پیدا ہوتا ہے اسی سے ہی مصلحت و مفاد کی طرف انسان جاتا ہے لیکن مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہی خصلت باغی اور قابو سے باہر ہو جاتی ہے انسان پر ذاتی مفادات غالب آ جاتے ہیں اور وہ دوسروں کے مفادات کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دینے لگتا ہے وہ صرف اور صرف اپنے مفاد کے بارے میں سوچتا ہے۔ شخصی مفادات کو عوامی مفادت پر ترجیح دینا اس وقت اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے جب وہ اپنے ذاتی یا اپنے پارٹی یا اپنے گروہ کے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے یا اس کا مفاد حاصل کرنا دوسروں کے جائز مفاد یا حق کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ زندگی کے بہت سے شعبوں میں ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر ترجیح دینے کا سامنا کر رہا ہے حقوق اور اموال عامہ پر تجاوز، پیشہ وارانہ ذمہ داریوں میں کوتاہی، پارٹی اور گروہی مفادات کے لیے کام، مفاد عامہ کا ضیاع، وطنی وملکی تشخص کی بجائے قبائلی، گروہی اور دینی تعصب کا غلبہ یہ سب وہ امور ہیں جنھوں نے لوگوں کو بہت سی مشکلات، پسماندگی، حقوق کی پامالی کا شکار کر رکھا ہے اور معاشرے کو ترقی کی دوڑ میں دوسری اقوام کے معاشروں سے پیچھے کر دیا ہے۔ عوامی و عمومی مفادات کا خیال رکھنا کسی معین شخص یا کسی معین گروہ سے خاص نہیں ہے بلکہ عام شہری، سرکاری ملازم، معلّم، مدرّس، یونیورسٹی کا استاذ، طبيب، تاجر،کسان، صعنت کار، سياستدان، فنکار، اہل فنون، قبائلی یا دینی گروہ وغیرہ سمیت ہر ایک اس میں شامل ہے ان سب میں جو فرد یا گروہ بھی اپنی ذمہ داری کو ادا کرتا ہے چاہے وہ پیسے اور سہولیات کے بدلے ہی کیوں نہ ہو اور اپنے ملک کے مفاد کو اپنی ذات، پارٹی اور قبیلے وغیرہ کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے وہ اپنی وطنیت اور اپنے دینی و وطنی ضمیر پہ اعتماد رکھتا ہےاور اس کے اندر اپنے عوام کے لیے غیرت موجود ہے۔ اور جو ایسا نہیں ہے وطن کے شعارات سے اور عوام کی محبت سے دور ہے اور اس میں انانیبت نے غلبہ کیا ہوا ہے
اترك تعليق