61ھ میں نصف یوم تک حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب و خاندان کے ہمراہان کو شہید کردیا گیا نصف یوم میں ظاہری طور پر ختم ہونے والے علم برداران کو جب ختم کیا گیا انہوں نے صدیوں تک جاری انسانی اقدار کو جنم دیا جنہوں نے دور حاضر تک اپنی حقانیت کو ثابت کیا ہے اور اپنے ہدف نصرت کو ہر خط میں لکھ کر سرخی نوشتہ قرار دیاکہ
"عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے"
بے شک آغاز حیات حضرت امام حسین علیہ السلام کے حالات اتنے مختصر نہ تھے مگر انسانیت پر سب سے زیادہ اثر واقعہ کربلاء نے متاثر کیا کیونکہ یہ لحظات کوئی عمومی نوعیت کے نہ تھے بلکہ ایک دردناک واقعہ کی سرنوشت جاری تھی جیسا کہ موت و حیات حضرت امام حسین علیہ السلام کی زندگی میں ساتھ مل گئے ہوں مگر جس طرح آپ نے ظلم کے خلاف اور انسانی حقوق کے لئے روز عاشوراء جس طرح بلند کی وہ صدیوں تک محیط ہوگئی جبکہ خصوصا اہلبیت علیہم السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے محبین اور پیروکاروں نے تمام تفاصیل واقعہ کربلاء لفظ بہ لفظ یاد رکھی ہیں اور یہی وہ حرارت ہے جو مؤمنین کے دلوں میں کبھی سرد نہ ہوگی ۔
مگر یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کربلاء مقدسہ میں 10 محرم الحرام کو ہوئی تو کیوں محبین اہل بیت علیہم السلام بالخصوص 20 صفر المظفر کو چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام مناتے ہیں؟
ایمان کی نشانی
زیارت حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے مروی روایات میں سے ایک ایسی روایت بھی ہے کہ جس میں مسلمان کے عقیدہ اور انسانیت کی کسوٹی ایمان میں 20 صفر کی زیارت قرار دیا گیا گے ۔
حضرت امام حسن العسکری علیہ السلام سے روایت ہے کہ مومن کی پہچان کے لئے پانچ نشانیاں ہیں 51 رکعت نماز روزانہ ، بسم اللہ الرحمن الرحیم کا بلند آواز سے تلاوت کرنا ، دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، زیارت چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام اور جبین پر محراب کا ہونا ہے ۔ اور یہ انسانی فطرت ہے کہ اعلیٰ درجات کی طرف مائل ہوتا ہے چاہے وہ دینی ہوں ،معاشرتی ہوں یا اپنے کیرئیر سے متعلق ہوں ۔
اسی طرح ایک محب اہلبیت علیہم السلام زیارت چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذریعے اسی بلندئ درجات کے لئے سعی مند ہے کیونکہ مومن کی نشانیوں میں سے ایک نشانی زیارت چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام ہے ۔
کائناتی ردعمل
علاوہ ازیں شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام کے وقت تمام کائنات سے مختلف واقعات رونما پذیر ہوئےحضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ رونما پذیر ہوا اس وقت امام محمد باقر علیہ السلام کمسن تھے آپ فرماتے ہیں کہ مابعد شہادت 40 روز تک آسمان سرخ طلوع و غروب ہوتا تھا۔
اور دیگر روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آسمان چالیس ایام تک خون روتا رہا اور زمین چالیس روز تک محزون رہی اور سورج چالیس روز تک گریہ اور گرہن رہا اور ہم اہلبیت علیہم السلام میں کسی اہل حرم نے زینت کی یہاں تک کہ عبیداللہ ابن زیاد کا سر بذریعہ مختار پہنچا ۔
اسی لئے انسان اس کائنات کا جزو ہونے کے ناطے اپنے حصے کی اس تاثیر انسانی کو محسوس کرے گا کیونکہ جہان اس غم میں آسمان و زمین و سورج و چاند کائنات کا ذرہ ذرہ اس تاثیر پر رویا بعید نہیں انسان اور محب اہلبیت علیہم السلام بھی اس منزل کو پہنچے گا اور غم کربلاء کے لئے اپنے اندر جاذبیت محسوس کرےگا
اترك تعليق