سوارِ دوشِ محمد (ص) کا رتبۂ عالی حدیثِ عجز ہے میرا بیانِ اجمالی کھلی ہے آج تخیل کی بے پر و بالی دکھائی دیتی ہیں لفظوں کی جھولیاں خالی یہاں ضعیف ہر اظہار کا وسیلہ ہے بس ایک دیدۂ خوں بار کا وسیلہ ہے مثیلِ شاہِ شہیدِ شہیر نا ممکن کوئی غریب ہو ایسا امیر نا ممکن حسین سا کوئی روشن ضمیر نا ممکن جہانِ عشق میں اس کی نظیر نا ممکن وہ جاں نثار عجب اک مثال چھوڑ گیا کہ اس کا صبر ستم کا غرور توڑ گیا چھپی ہے اس کے تدبّر میں معرفت کیسی کہ مصلحت کی جنوں سے مناسبت کیسی ہوس کے ساتھ وفا کی مفاہمت کیسی ستم گروں کے ستم سے مصالحت کیسی اسی کی دین ہے یہ سوچ کا قرینہ بھی کہ ایک جرم ہے ظالم کے ساتھ جینا بھی مثالِ مہرِ جہاں تاب ضوفشاں ہے حسین ہمہ خلوص ہے ایثارِ بے کراں ہے حسین حیات راز ہے اور اس کا رازداں ہے حسین ریاضِ دہر میں خوشبوئے جاوداں ہے حسین وہ ظالموں کو ہمیشہ کا انتباہ بھی ہے وہ اپنی ذات میں تفسیرِ لا الہ بھی ہے