گھوڑے پر چڑھائے گا تمہیں بھائی تمہارا تم قبر میں مردہ نہ اتارو گے ہمارا
اللہ! علم دار کیا ہم سے کنارا پردیس میں تابوت ہمارا نہ سنوارا
تم چھٹ گئے بھائی سے تو سب چھٹ گئے عباس
سر کھل گیا زینب ؑ کا ، حرم لٹ گئے ،عباس
غازی نے یہ سن کر سر تسلیم جھکایا اوردرکے قریب آن کے زوجہ کو بلایا
کچھ اس سے کہا،سنتے ہی زیور کو بڑھایا زینب ؑ نے سبب پوچھا تو روکر یہ سنایا
کہتے ہیں نولاکھ کے نرغے میں گھروں گا
مہر اپنا مجھے بخش دو جیتا نہ پھروں گا
اسوار ہوا جلد علم دار گرامی! اکبرؑ نے رکاب اور عناں شاہ نے تھامی
اقبال دوعالم نے دیا خط غلامی ہے چرخ بریں جھک کے زمیں ،اٹھ کے سلامی
کیوں دامن دولت نہ کہوں دامن زیں کو
دامن میں لیا زین نے اس دولت دیں کو
اللہ رے طمانچہ رخ روشن کی چمک کا تھا دور پہ منہ پھر گیا خورشید فلک کا
سکتے میں تھا عالم یہ ہو جن و ملک کا طالب ہوا ہر ثابت و سیارہ کمک کا
روشن ہوئی اس درجے زمیں نور سے زیں کا
پروانہ صفت عرش پھرا گرد زمیں کے
اترك تعليق