حضرت امام حسن علیہ السلام جب دنیا سے جارہے تھے اور زہر کی وجہ سے جگر کے ٹکڑے ہو کر نکل رہے تھے تو امام حسن علیہ السلام ایک عالم کرب میں تھے۔ جب آخری وقت آیا تو آپ نے فرمایا: میرا قاسم کہاں ہے؟ ذرا بلالو۔ اس وقت جنابِ قاسم کی عمر صرف تین سال کی تھی۔
جنابِ قاسم کو لایا گیا۔ تین سال کا بچہ، امام حسن نے سینے سے لگایا۔ اُس کا منہ چوما۔ بہت دیر تک سینے سے لگائے ہوئے روتے رہے۔ اب باپ کو جو روتے دیکھا تو یہ بچہ بھی چیخ چیخ کر رونے لگا۔ امام حسن نے خاموش کروایا اور فرمانے لگے:
بیٹا قاسم ! تم بہت چھوٹے ہو، اس لئے تم سے کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ بس اتنی سی بات بھولنا نہیں، یہ تعویذ تمہارے بازو پر باندھے دیتا ہوں۔ جب کبھی تمہیں سب سے زیادہ سخت وقت دنیا میں معلوم ہو کہ اس سے زیادہ سخت وقت نہیں آسکتا تو ذرا اس کو کھول کر دیکھ لینا اور قاسم کی ماں سے کہنا کہ ذرا اس کا خیال رکھنا، یہ گم نہ ہونے پائے۔
تعویذ بندھا ہوا ہے، عاشور کا دن آگیا۔ اب بچے کی عمر ہے تیرہ سال۔ امام حسین اپنے بھائی امام حسن کے عاشق تھے۔ یہ عام کتابوں میں ہے کہ جب کبھی امام حسن اور امام حسین ایک جگہ بیٹھ جاتے تھے تو امام حسین بڑے بھائی کے سامنے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ اتنی بات تھی اور اتنا احترام تھا۔
عاشور کا دن جب آیا تو یہ بچہ کئی دفعہ آیا، کئی بچوں کی لاشیں آگئیں۔ جنابِ زینب کے بچوں کی لاشیں حسین لے آئے اور بھی ایک دو بچوں کی لاشیں آگئیں۔ یہ بچہ گھر میں جاتا تھا اور پھر نکلتا تھا اور چچا کے پاس آتا تھا۔ میرا یہ خیال ہے کہ ماں بھی کہتی تھیں کہ بیٹا ابھی تک اجازت نہیں لی۔ چنانچہ آتے تھے جنابِ قاسم اور عرض کرتے تھے ، چچا جان! مجھے بھی تو اجازت دیجئے۔ امام حسین بچے کی صورت دیکھتے تھے اور بھائی حسن یاد آجاتے تھے۔ امام حسین گلے سے لگا کر رو دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ بیٹا! ابھی ذرا ٹھہر جاؤ۔ جنابِ قاسم اس اُلجھن میں تھے کہ اب کیا کروں؟ چچا اجازت نہیں دیتے۔
ایک مرتبہ خیال آیا کہ بابا نے کہا تھا کہ جب دنیا میں سب سے زیادہ سخت وقت آجائے تو اس تعویذ کو دیکھ لینا۔ جنابِ قاسم ایک طرف چلے گئے۔ وہاں جاکر کھولا یہ تعویذ تو اس میں لکھا تھا کہ بیٹا قاسم ! جس دن تم تعویذ کھولو گے، وہ عاشورہ کا دن ہوگا۔ میرا بھائی چاروں طرف سے گھر چکا ہوگا۔ بیٹا! اگر میں موجود ہوتا تو اپنے بھائی پر سے اپنی جان قربان کر دیتا۔ میں نہ ہوں گا، تم ہوگے۔ میری عزت کا خیال رکھنا۔ جس وقت جنابِ قاسم نے یہ پڑھا تو اس خط کو لے کر آئے اور کہا کہ چچا جان! اب ذرا یہ خط تو دیکھ لیجئے، میں کیا کروں، میں کس طرح نہ جاؤں میدان میں؟ میرے بابا کی وصیت ہے جو آج مجھے معلوم ہو رہی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے وہ خط پڑھا۔ بھائی کی محبت یاد آگئی۔ قاسم کو سینے سے چمٹا لیا اور کافی دیر تک روتے رہے شبیر بلکہ امام بیہوش ہوکر گر پڑے۔
تمام واقعہ کربلا میں آپ کسی کتاب میں نہ دیکھیں گے کہ امام حسین علیہ السلام کسی کی رخصت کے وقت بیہوش ہوئے ہوں، یہاں تک کہ جنابِ علی اکبر گئے ہیں تو امام حسین نے خود سوار کیا ہے۔ خود اپنا عمامہ اُتار کر علی اکبر کے سرپر رکھا لیکن قاسم کی روانگی کے وقت بھائی حسن کو یاد کرتے ہوئے اتنا روئے کہ بیہوش ہوگئے۔
جب ہوش میں آئے تو جنابِ قاسم نے عرض کی کہ اب تو اجازت دیجئے۔ فرماتے ہیں کہ بیٹا جاؤ!اب میں کیا کروں، مگر اپنی ماں سے تو پوچھ لو۔آ ئے جنابِ قاسم دروازے میں کھڑی ہیں اُمّ فروہ دیکھتے ہی کہتی ہیں:بیٹا! اجازت مل گئی؟ قاسم نے کہا: اماں مل گئی۔ فرماتی ہیں:
اچھا بیٹا جاؤ اور ماں کو سرخرو کرو۔ جنابِ قاسم آئے اور امیرالموٴمنین علیہ السلام کے پوتے تھے، آخر دادِ شجاعت دی مگر چاروں طرف سے جب گھر گئے تو کسی کی تلوار لگی،کسی کا نیزہ لگا۔ گھوڑے سے جو گرے تو عزادارانِ اہلِ بیت ! اِدھر کے گھوڑے اُدھرگزر گئے اور اُدھر کے گھوڑے اِدھرگزر گئے۔ ارے تیرہ سال کا بچہ، اس کی ہڈیوں اور گوشت میں تھا کیا، مگر گرتے گرتے آواز دی، چچاجان! اب میں جارہا ہوں، ایک مرتبہ زیارت کروادیجئے۔
حسین روتے ہوئے آئے۔ یزیدیوں کو تلوار سے ہٹایا۔ ارے قاسم کی لاش پر پہنچے مگر قاسم کی ایسی حالت تھی کہ دنیا سے جاچکے تھے ۔ قاسم کواُٹھایا، منہ پر منہ رکھا، سینے کو سینے سے ملایا۔مگر تیرہ سال کے بچے کی لاش کی حالت یہ تھی کہ پاؤں زمین پر گھسٹتے ہوئے آرہے تھے، ہوا کیا؟ گھوڑوں نے وہ کیا جو کسی شہید کے ساتھ نہیں ہوا۔ جب خیمے میں پہنچے تو زینب انتظار میں تھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے قاسم کی لاش زمین پر لٹا دی۔ ماں خیمے کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں اور دیکھ رہی ہیں۔ جب تک حسین رہے روئی نہیں جب حسین باہر نکلے، ایک مرتبہ کہا:بیٹا قاسم !ارے دولہا بن کر آگئے، مجھے تم نے سرخرو کردیا۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
اترك تعليق