اخلاقی اقدار اور باہمی اتفاق کے استحکام کے لئے ضروری نکات

اعلی دینی قیادت نےاس بات پر زور دیا ہے کہ مومنین کو معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ان اخلاقی اقدار کو اپنانا چاہیے کہ جن کی طرف اسلام نے دعوت دی ہے اور اسی طرح سے ایسی افکار سے دور رہنا چاہیے کہ جن سے ایک دوسرے کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی ہیں اگر مومنین ان اخلاقی اصولوں کی پابندی نہ کریں اور اپنے بھائیوں کے حقوق کا لحاظ نہ رکھیں تو معاشرہ بہت سی کھائیوں میں جا گرے گا۔ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں 12 جنوری 2018ء بمطابق 24 ربیع الثانی 1439ھ کو علامہ کربلائی نے اپنے خطبہ میں کہا:ہم ابھی تک ان اخلاقی و اجتماعی اقدار پر مشتمل نظام کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں کہ جن کو اپنانے کی اسلام نے مومنین کو معاشرے میں دعوت دی ہے ۔ہم نے گزشتہ خطبات میں بیان کیا تھا کہ اسلام ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات اور مثبت و مضبوط روابط قائم کرنے کا خواہاں ہے کیونکہ اسی کے ساتھ معاشرے کے بہت سے مفادات جڑے ہوئے ہیں ۔ اور اگر معاشرہ ان اخلاقی و اجتماعی اقدار کو اپنا لیتا ہے تو معاشرہ اجتماعی طور پر ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑ جائے گااور اس معاشرے میں اجتماعی و اخلاقی امن و امان کا دور دورہ ہو جائے گا اور معاشرہ ہر قسم کے داخلی اور خارجی چیلنجز اور مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔اسلام نےان اخلاقی و معاشرتی اور نفسیاتی خطرات سے بھی آگاہ کیا ہے کہ جو ان اقدار کو اپنائے نہ جانے کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں اگر مومنین ان اخلاقی اصولوں کی پابندی نہ کرے ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ نہ رکھے تو معاشرہ بہت سی کھائیوں میں جا گرے گا ۔ ہم نے ان اخلاقی اصولوں میں سے بعض کا ذکر کیا تھا اور آج ہم چند ایسے خطرات کا ذکر کرتے ہیں کہ جن کے بارے میں اسلام نے خبردار کیا ہے ان اصولوں کا اپنایا نہ جانا معاشرے کی سلامتی سے محروم کر سکتا ہے اور معاشرے کے افراد کے درمیان تفرقہ ، دشمنی ،نفرت اور بغض پیدا کر سکتا ہے کہ جس سے پورا معاشرہ اتنا کمزور ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی چیلنج اور مشکل کا سامنا نہیں کر سکے گا۔ان اقدار کو نہ اپنانے کی صورت میں عمومی طور پر 9 خطرات کا معاشرے کو سامنا ہو سکتا ہے وقت کی قلت کی وجہ سے ان تمام کا ذکر تو ممکن نہیں البتہ ان میں سے اہم ترین خطرہ کی طرف ہم اشارہ کریں گے کہ جس کا تعلق صرف عراق سے نہیں بلکہ تمام اقوام اور تمام ممالک کی اجتماعی ، اقتصادی اور ثقافتی سطح سے ہے اور وہ خطرہ اپنے آپ کو دوسروں سے بالا تر سمجھنا ہےکوئی انسان یا کوئی خاص معاشرہ یا کسی خاص مذہب و فکر کے ماننے والے اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھنے لگے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فوقیت و برتری کا یہ نظریہ کسی انسان یا معاشرے میں کیسے پیدا ہوتا ہے؟اپنے آپ کو بالا تر سمجھنا تکبر کی طرف لے جاتا ہے اور دوسروں کی تذلیل اور قتل و غارت گری کے راستے پر گامزن کر دیتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو کسی بھی معاشرے کے لیے خطرناک ترین چیز ثابت ہو سکتی ہے ۔بالا تری کی فکر مختلف اقسام کے تعصب سے پیدا ہوتی ہے اور اس میں سب سے اوپر دینی تعصب ہے سب جانتے ہیں کہ مذاہب کے درمیان کچھ عقائدی اختلافات موجود ہیں اور بعض مذاہب کے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب سے افضل اور سب سے صحیح ہیں جو شخص حق پر ہے اور اپنے آپ کو صاحب حق سمجھتا ہے اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جو شخص صحیح راستے پر نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحیح اور افضل سمجھتا ہے وہ دوسروں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ بالاتری کی فکر کا حامل شخص جب دوسرے مذاہب کے لوگوں سے میل جول میں بھی اظہار برتری کرنا شروع ہو جائے تو خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے کیونکہ وہ دوسروں کو ادنی ٰ ، گمراہ اور باطل پرست تصور کرنے لگتا ہے اور دوسروں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔ہم اس مسئلے کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟قرآن مجید اور احادیث نے ہمیں بتایا ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلاف موجود ہے اور قیامت تک ہم اس صورت حال کو تبدیل نہیں کر سکتے ......لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل حق دوسروں کو حق کی طرف دعوت نہ دیں اور حقیقت کو لوگوں کے سامنے واضح نہ کریں .....اہل حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق کو بیان کریں لیکن اس کے ساتھ اس کی دلیل اور برہان کو بھی پیش کریں اور دوسروں کی اہانت و تذلیل پر مشتمل طریقوں سے گریز کریں کیونکہ دلیل کے بغیر حق بیان کرنے اور دوسروں کی تذلیل سے معاشرے میں نفرت کے جراثیم نشوونما پاتے ہیں۔اسلام نے دانائی اور احترام کے ساتھ دوسروں کو دعوت حق دینے کا حکم دیا ہے یعنی دوسرے مذاہب کا احترام کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ حق کی طرف دعوت بھی دی جائے۔ قرآن نے حق کو بیان کرنے کی آزادی دی ہے لیکن یہ آزادی قواعد و ضوابط کے دائرہ میں ہے کہ جس سے منفی نتائج برآمد نہیں ہوتے یہ قواعد معاشرے کے اجتماعی سلامتی و امن و امان کے محافظ ہیں اور ان کے ذریعے لوگوں کے درمیان نفرت پیدا نہیں ہوتی۔ہمارے ہاں ایک اور تعصب بھی ہے کہ جو فکری و نظریاتی تعصب کہلاتا ہے ضروری نہیں کہ یہ فکری و نظریاتی تعصب مذہبی بنیاد پر ہو بلکہ ان افکار و نظریات کا تعلق ثقافتی یا معاشرتی امور سے بھی ہو سکتا ہے فکری تعصب کے حامل افراد انجماد اور فکری دروازوں کی بندش کے شکار ہوتے ہیں اور وہ اپنی آراء کے بارے میں تبدیلی کرنے یا ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنے سے کتراتے ہیں اور بعض دفعہ اپنے نظریات کے حوالے سے انتہائی شدت پسندی اور سخت گیری کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں اور دوسروں کو غلط شمار کرتے ہیں اس قسم کا تعصب معاشرے میں تفرقہ اور کینہ کے بیج بو دیتا ہے اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ڈاکٹر یا انجینئر یا استاد یا کوئی شخص یہ سمجھنے لگے کہ میرے پاس جو معلومات ہیں میں ان کی وجہ سے دوسروں سے افضل ہوں اور وہ بالاتری کی اس خوش فہمی میں دوسروں کی آراء کو قبول کرنا چھوڑ دے اور ماہرین کی آراء کو اپنے تکبر کی وجہ سے ٹھکرا دے تو وہ ایک طرف فکری جمود کا شکار لوگوں کا ایک گروہ پیدا کرے گا اور دوسری طرف علمی و فکری ترقی کے سامنے دیوار بن جائے گا۔تعصب کی ایک تیسری قسم بھی ہے کہ جو قومی یا قبائلی تعصب کہلاتا ہے اگر انسان اپنے قبیلے یا قوم کی وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھنا شروع ہو جائے تو وہ دوسروں پر حکمرانی اور تسلط کا خواہش مند ہونا شروع ہو جاتا ہے اور عملی طور پر اس کے اظہار سے معاشرے میں نفرت ، جنگیں اور تفرقہ پیدا ہوتا ہے۔ میری قبائلی سرداروں سے گزارش ہے کہ وہ اس نقطہ کی طرف متوجہ ہوں اور محفلوں میں اپنے قبیلے کے دوسروں سے افضل ہونے کے اظہار سے گریز کریں ۔تعصب کی اور قسم سیاسی تعصب بھی ہے جب سیاست دان یہ سمجھنا شروع ہو جائے کہ اس کی سیاسی افکار اس ملک کے مفادات کے لیے سب سے بہتر ہیں اور دوسروں کی افکار صحیح نہیں ہیں تو وہ ایک بہت بڑی مشکل پیدا کر دیتا ہے ایسا شخص زیادہ سے زیادہ سیاسی مکاسب کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کشمکش میں دوسروں کے حقوق کو بھی پامال کر دیتا ہے اور تنقید کرنے والوں کی باتوں پر دھیان نہیں دیتااور بعض اوقات تو وہ اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کے خلاف محاذ جنگ کھول لیتا ہے......اور پھر عوام اور پوری قوم اس سیاسی تعصب کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس تعصب سے محفوظ رکھے اور ہمیں ان کاموں کی توفیق عطا فرمائے جنہیں وہ پسند کرتا ہے۔

منسلکات