قضیۂ فدک
قضیۂ فدک نے اسلامی تاریخ میں ایک وسیع جگہ حاصل کی ہے، اور یہ کئی کتب، تصانیف اور موضوعات کی مرکزی سرخی بنی رہی ہے۔ اس نے بہت زیادہ بحث و مباحثہ کو جنم دیا، اور مؤرخین و مصنفین کی آراء میں تضاد پایا گیا: ایک گروہ نے اس کی تاریخی اہمیت کو اُجاگر کیا، جبکہ دوسرے نے چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد اس کا تذکرہ کرنے کو ناگوار سمجھا، اور اس کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے فدک کے غصب کو ایک غلط "تأوّل" (غلط تعبیر) قرار دیا، حالانکہ قرآنی اور تاریخی نصوص نے اسے غصب شدہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
بعض لوگوں نے یہ رائے دی ہے کہ اس موضوع نے اپنے حقیقی حجم سے زیادہ جگہ لے لی ہے۔ آخر ایک زمین کی کیا قیمت ہے – اس کی آمدنی چاہے کتنی بھی ہو – کہ وہ اس قضیے کے دونوں فریقوں کے درمیان صدیوں پر محیط اس دیرینہ اختلاف کو جنم دے جس نے بالآخر مسئلہ خلافت کے برابر جگہ لے لی؟
اگر ہم اس موضوع کو تمام پہلوؤں سے کھوجیں، تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اس کا اس قدر پھیل جانا اور لمبا ہو جانا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ سقیفہ کے مخالف اس کشمکش کا مرکز ہے جس نے قرآن کریم اور سنت شریفہ کے مفاہیم کو جھٹلایا۔ لہٰذا، اگر محققین نے اُمت کی زندگی کے اس اہم واقعہ کو گہرائی سے جانچا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ یہ اُمت کے مستقبل کا معاملہ ہے، نہ کہ کوئی ایسا مسئلہ جسے مختلف پہلوؤں کا حامل سمجھا جائے یا جس سے فرضیات کو خارج کر دیا جائے۔
فدک کا قصہ
تمام تاریخی ذرائع اس بات پر متفق ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے فتحِ خیبر کے بعد فدک کے یہودیوں کو خط لکھا جس میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ یہودیوں نے جواب میں یہ لکھا کہ وہ آپ (ص) سے اس شرط پر صلح کر لیں گے کہ فدک انہیں دے دیا جائے، تو نبی اکرم (ص) نے اسے قبول فرما لیا۔ اس طرح فدک آپ (ص) کی ملکیت ہو گئی، اور جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ﴾ (اور قرابت دار کو اس کا حق دو) تو آپ (ص) نے اسے اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراء (علیہا السلام) کو ہبہ کر دیا۔
اس سلسلے میں فریقین کی جانب سے متعدّد اسناد کے ساتھ اور ایک ہی مفہوم پر مشتمل کئی روایات نقل ہوئی ہیں۔ فدک وہ زمین تھی جس پر مسلمانوں نے گھوڑے دوڑائے اور نہ ہی اونٹوں پر سوار ہو کر حملہ کیا، اس لیے یہ رسول اللہ (ص) کی خاص ملکیت تھی اور آپ (ص) اس میں ہر طرح کے تصرف کے مجاز تھے، کیونکہ یہ "فَیْء" (مال) میں سے تھا جو مسلمانوں کی طرف سے کسی مشقت کے بغیر حاصل ہو، اور اس کا حکم نبی (ص) کے ہاتھ میں تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے:
﴿وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُم فَمَا أَوجَفْتُم عَلَيْهِ مِنْ خَيلٍ وَلَا رِكَابٍ﴾
(اور جو (مال) اللہ نے اپنے رسول کو اُن سے دلوایا ہے تو تم نے اُس پر نہ گھوڑے دوڑائے ہیں اور نہ ہی اونٹ۔)
فدک کی آمدنی آلِ بنی ہاشم کے فقراء اور دیگر ضرورتمندوں پر خرچ ہوتی تھی۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ فدک ایک زرعی زمین تھی جو گندم اور کھجور کی کاشت کے لیے مشہور تھی، اور اس کی آمدنی فقراء و محتاجین کی ضروریات پوری کرتی تھی اور بڑا منافع دیتی تھی۔
پہلے خلیفہ نے فدک کو ضبط کر لیا اور اسے اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کیا، اپنے اس فعل کی توجیہ ایک کمزور دلیل اور ایک من گھڑت حدیث سے دی جسے جھوٹا رسول اللہ (ص) کی طرف منسوب کیا گیا، جبکہ یہ حدیث قرآن کریم کے احکام اور سنتِ نبوی کے خلاف تھی۔ ان کے بعد آنے والوں نے بھی اس غصب اور اپنی مرضی کے مطابق اسے بخشنے کا عمل جاری رکھا۔
اس قضیے کے بڑے نتائج میں سے ایک سیدہ زہراء (علیہا السلام) کا مشہور "خطبۂ فدکیہ"
ہے، جس میں آپ نے فدک کا مطالبہ کیا۔ اس خطبہ میں آپ (ع) کے ارشادات میں سے یہ بھی ہے:
"اے مسلمانو! کیا مجھ سے میری وراثت پر غلبہ پا لیا جائے گا؟ اے ابو قحافہ کے بیٹے! کیا اللہ کی کتاب میں یہ ہے کہ تم اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ تم نے اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں ایک عجیب بات کہی ہے۔ کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اسے پسِ پشت ڈال دیا؟ جبکہ وہ (اللہ) فرماتا ہے: (وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ) [اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے]، اور یحییٰ بن زکریا (ع) کے قصے میں جو فرمایا ہے، اُس میں ہے: (فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ٭ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ) [تو مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا کر جو میرا بھی وارث ہو اور آلِ یعقوب کا بھی وارث ہو]، اور یہ بھی فرمایا: (وَأُوْلُوا الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ) [اور رشتہ دار اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں]، اور فرمایا: (يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ) [اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے]، اور فرمایا: (إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ) [اگر وہ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے پر وصیت کرنا پرہیزگاروں پر حق ہے]۔ اور تم نے یہ دعویٰ کیا کہ میرا کوئی حصہ نہیں اور نہ میرے باپ کی وراثت میں میرا کوئی حق ہے اور نہ ہمارے درمیان کوئی قرابت ہے۔ کیا اللہ نے تم کو قرآن میں کسی ایسی آیت کے ذریعے خاص کر دیا ہے جس سے میرے والد محمد (ص) کو خارج کر دیا ہو؟ یا تم کہتے ہو کہ دو مختلف ملتوں والے وراثت نہیں پاتے؟ کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت سے تعلق نہیں رکھتے؟ یا تم میرے والد اور میرے چچا کے بیٹے سے زیادہ قرآن کے خاص اور عام کو جانتے ہو؟"
پھر آپ (ع) نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "اے بنی قیلہ! کیا میرے والد کی وراثت مجھ سے چھین لی جائے، اور تم مجھے دیکھ رہے ہو، سن رہے ہو، مجلسوں میں جمع ہو؟"
اسی طرح، امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلام میں بھی اس واقعہ کے اثرات ملتے ہیں، جب آپ نے عثمان بن حنیف کو ایک خط میں لکھا: "جو کچھ آسمان کے سائے تلے تھا، اس میں سے فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا، تو کچھ لوگوں کے نفوس نے اس کی حرص کی اور دوسرے لوگوں کے نفوس نے اسے چھوڑ دیا، اور اللہ بہترین حاکم ہے..."
حضرت زہراء کا خطبہ اور امیر المؤمنین (علیہما السلام) کا خط ایک سوال پیدا کر سکتا ہے کہ فدک کی اتنی فکر کیوں، جبکہ یہ صرف ایک زمین ہے، اور وہ دونوں رسول اللہ (ص) کے بعد اہلِ زمین کے سردار تھے۔
فاطمہ، جن کے ہاتھ شظف العیش (سخت زندگی) اور بھوک کی وجہ سے لرزتے ہوئے چھالے پڑ گئے تھے، جبکہ فدک ان کے ہاتھ میں تھا، مگر وہ اس کی آمدنی کو اپنے لیے مخصوص نہیں کرتی تھیں، بلکہ مسکین کی بھوک مٹانے، یتیم کے آنسو پونچھنے، اور اسیر کی غربت دور کرنے کے لیے استعمال کرتی تھیں...
فاطمہ، سیدۃ النساء (عورتوں کی سردار)، جو اپنی شادی کے دن ایک اونی لباس، ٹاٹ کے بستر، ایک دیگ، ایک مٹکا، اور ایک چٹائی پر راضی ہو گئیں تھیں، جو سب کے سب علی کی زرہ کی قیمت کے برابر تھے۔
فاطمہ، جن کی روح کو ایثار اور سخاوت کی عادت تھی، جو کچھ بھی کھانے کو ہوتا جو اُن کا اور اُن کے بچوں کا پیٹ بھرتا، وہ اسے بھی دوسروں کو دے دیتیں۔
اور علی...، جب وہ بیت المال کو کھولتے تو سونا، چاندی اور مال و دولت ان کے سامنے چمک اٹھتے، تو آپ فرماتے: "اے زرد (سونا)! کسی اور کو دھوکہ دے!" پھر وہ قنبر کو بلاتے تاکہ مسلمانوں کو جمع کرے اور رسول اللہ (ص) کی تقسیم کے مطابق وہ مال ان میں تقسیم کر دیں۔ پھر قنبر کو تین دینار دیتے اور خود بھی تین دینار لیتے... اور بیت المال میں جھاڑو دیتے، پھر روتے اور فرماتے: "اے دنیا! مجھ سے دور ہو جا، کیا تو میرے سامنے اپنے آپ کو پیش کر رہی ہے؟ یا میری مشتاق ہے؟ تیرا وقت نہ آئے! ہائے، کسی اور کو دھوکہ دے، مجھے تیری کوئی حاجت نہیں، میں نے تجے تین طلاقیں دی ہیں جن میں رجوع نہیں ہے، تیری زندگی چھوٹی، تیرا خطرہ کم، اور تیری اُمید حقیر ہے۔ آہ! زادِ راہ کی کمی، راستے کی طوالت، سفر کی دوری اور ٹھکانے کی عظمت سے!"
علی، جو خود فدک کے بارے میں فرماتے ہیں: "اور میں فدک اور غیر فدک کا کیا کروں گا، جبکہ کل نفس کی منزل قبر ہے، جس کی تاریکی میں اس کے آثار منقطع ہو جائیں گے اور اس کی خبریں غائب ہو جائیں گی، اور اگر کھودنے والے کے ہاتھ قبر کی کشادگی میں اضافہ بھی کریں تو پتھر اور مٹی اسے تنگ کر دیں گے اور جمی ہوئی مٹی اس کے سوراخ بند کر دے گی! یہ تو میرا نفس ہے جسے میں پرہیزگاری سے سدھا رہا ہوں تاکہ وہ بڑے خوف کے دن میں امن سے آئے"
پس، ان دونوں کا فدک کا مطالبہ فدک کی خاطر نہیں تھا، بلکہ اس لیے تھا کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھوک سے تڑپے نہیں اور امیروں کے دروازوں پر بھیک نہ مانگے۔
ان کا مطالبہ اس لیے تھا کہ "حجاز یا یمامہ میں کوئی ایسا نہ ہو جسے ایک روٹی کے ٹکڑے کی بھی اُمید نہ ہو اور جسے شکم سیری حاصل نہ ہوئی ہو" اور "تاکہ فقیر کو اس کی غربت نہ تڑپائے۔"
ان کا مطالبہ اس لیے تھا کہ انسان اپنے رب کا انکار نہ کرے اور ایک روٹی کے بدلے اپنا دین نہ بیچے۔
اور یہ بھی اس لیے تھا کہ سنتِ مصطفیٰ، روشن شریعت کے احکام، اور قرآن کریم کے قوانین کو تبدیل نہ کیا جائے۔
اور اس لیے تھا کہ حق قائم ہو اور باطل کو رد کیا جائے تاکہ پہلی جاہلیت واپس نہ آئے، اور انسانی بتوں کی عبادت نہ ہو جیسا کہ امویوں اور عباسیوں کے دور میں ہوا۔
پس، ان کا مطالبہ بنیادی طور پر اسلام اور مسلمانوں کے لیے تھا، اور یہ کہ خلافت کے اہل وہی ہوں جنہیں نبی (ص) نے نامزد کیا تھا۔
اور فدک اس عظیم ترین حق کی علامت بنا رہا جو اسلام میں سب سے پہلے غصب ہوا، اور اللہ کے اس اہم ترین حکم کی جو تبدیل ہوا، اور نبی کے احکامات کی پہلی نافرمانی اور جاہلیت کی طرف پہلا پلٹاؤ تھا۔ فدک کا مطلب خلافت ہے، اور یہ بات امام کاظم (ع) کے مہدی عباسی کو دیے گئے جواب سے واضح ہوتی ہے، جب مہدی نے آپ (ع) کو بلا کر فدک واپس کرنے کی پیشکش کی، تو امام (ع) نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ جب مہدی نے اصرار کیا تو آپ (ع) نے فرمایا: "میں اسے قبول نہیں کروں گا مگر اس کی حدود کے ساتھ۔" جب مہدی نے حدود کے بارے میں پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: "پہلی حد: عدن، اور دوسری حد: سمرقند... اور تیسری حد: افریقیہ... اور چوتھی حد؟ بحرِ خزر اور آرمینیا کی طرف کا سمندر کا کنارہ..." اور یہ عباسی سلطنت کی حدود تھیں۔
مہدی اس وقت اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا جب اس نے چوتھی حد سنی، اور غصہ اس کے چہرے سے عیاں تھا، کیونکہ وہ امام کے ان حدود سے مقصود سمجھ گیا تھا، اور اس نے آپ سے کہا: "اب تو کچھ بھی نہیں بچا، آپ میری مجلس میں تشریف لائیے..." تو امام نے جواب دیا: "میں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ اگر میں اس کی حدود بیان کروں گا تو آپ اسے واپس نہیں کریں گے۔"
اس گفتگو سے فریقین کے نزدیک خلافت کا تصور بھی واضح ہوتا ہے: سقیفہ، اموی اور عباسیوں کے پیروکاروں کے نزدیک خلافت کا تصور محض اقتدار، ملکیت، تکبر، قتل، آوارگی، اور ہر طرح کے حربوں سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنا، "الملک عقیم" (بادشاہت بے اولاد ہوتی ہے) کا نعرہ بلند کرنا، اور بھوکوں کے بل پر لذتوں، نشے اور عیش و آرام میں ڈوبے رہنا تھا۔
جبکہ اہل بیت (ع) کے نزدیک خلافت کا تصور، ان کے اصولوں اور اہداف میں یکجا اور مجسّم نظر آتا ہے، جو ان کے اقوال اور افعال دونوں میں ظاہر ہے۔ ہمیں یہ امیر المؤمنین (ع) کی ابن عباس سے کی گئی گفتگو میں ملتا ہے جب انہوں نے آپ کو جنگِ جمل جاتے ہوئے اپنا جوتا ٹانکتے ہوئے دیکھا، تو ابن عباس نے اس مقام پر اس فعل کو عجیب جانا، تو امام (ع) نے فوراََ سوال کیا: "اس کی قیمت کیا ہے؟" ابن عباس نے جواب دیا کہ اس کی کوئی قیمت نہیں، تو امام (ع) نے خلافت کا حقیقی مفہوم واضح کرتے ہوئے جواب دیا، اور اس کے آسمانی اہداف کی وضاحت کی جو بھلائی، احسان، انسان کی اصلاح، اور ایک بہترین معاشرے کی تخلیق پر مبنی ہیں، آپ نے فرمایا:
"اللہ کی قسم! یہ (جوتا) مجھے تمہاری امارت سے زیادہ محبوب ہے، سوائے اس کے کہ میں اس کے ذریعے حق قائم کروں اور باطل کو مٹاؤں۔"
پس، خلافت جوتے سے بھی بدتر ہے اگر اس میں اللہ کی اطاعت، عدل کا قیام، اور حقوق کی ادائیگی نہ ہو۔ یہ مفہوم ہمیں امام حسن (ع) کی طرف سے معاویہ پر رکھی گئی ان شرائط میں بھی ملتا ہے جو انہیں بے گناہ لوگوں کا خون بہانے سے روکتی ہیں، اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کا حکم دیتی ہیں۔ اور یہ مفہوم امام حسین (ع) کے قیام میں اپنی شاندار ترین صورت میں ظاہر ہوا، جب آپ نے فرمایا: "میں فساد یا شہرت کی طلب میں نہیں نکلا ہوں، میں تو اپنے نانا رسول اللہ (ص) کی اُمت میں اصلاح کے لیے نکلا ہوں، میں نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہتا ہوں۔" اور یہ مفہوم تمام ائمہ معصومین (ع) کے رویوں اور اقوال میں ظاہر ہوا ہے۔
اہل بیت (ع) کے نزدیک خلافت اقتدار نہیں تھی، بلکہ اُمت کے تئیں ایک ذمہ داری اور فریضہ تھا کہ اس کی قیادت خاتم النبیین (ص) کے لائے ہوئے حقیقی احکامِ اسلام کے مطابق کی جائے اور اسے کج روی اور انحراف سے بچایا جائے۔ اور یہ کام اللہ کے مخصوص کردہ ائمہ کے سوا کسی سے ممکن نہیں، جنہیں رسول (ص) نے نامزد کیا اور جنھیں قرآن کے ساتھ جوڑ دیا۔
پس، حضرت زہراء (علیہا السلام) کا اپنے حق کا مطالبہ، جو آپ کے عظیم "خطبۂ فدکیہ" میں مجسّم ہوا، اسلام میں جاہلی قریشی تسلط، ظلم اور جبروت کے خلاف پہلی نہضت تھی۔
