عید الفطر: مسرتوں، برکتوں اور روحانی پاکیزگی کا دن

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسلامی تہواروں میں عید الفطر کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے خوشی، شکر، عبادت، اور اتحاد و محبت کا اظہار ہے۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے اختتام پر منائی جانے والی یہ عید، مسلمانوں کے لیے اللہ

تعالیٰ کی طرف سے خصوصی انعام ہے۔

عید الفطر اسلامی تقویم کی ایک اہم عبادت اور خوشی کا موقع ہے، جو ماہِ رمضان کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے شکر، مسلمانوں کی روحانی کامیابی، اور سماجی یکجہتی کا دن ہوتا ہے۔ شیعہ مکتبِ فکر کے مطابق، عید الفطر کی دینی، روحانی اور سماجی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اسے مخصوص انداز سے منایا جاتا ہے جس میں اہلِ بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔

عید الفطر کا تاریخی پس منظر

"عید" عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی اور جشن کے ہیں، جبکہ "فطر" سے مراد روزہ افطار کرنا ہے۔ اسلامی تاریخ کے مطابق پہلی مرتبہ عید الفطر 2 ہجری کو منائی گئی جب مسلمانوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کا حکم پورا کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ اس دن کو عبادت، شکر اور خوشیوں کے اظہار کے طور پر منایا جائے۔

عید کی روحانی اہمیت

عید الفطر نہ صرف خوشی کا دن ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے روحانی تجدید کا بھی ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمانوں نے صبر، تحمل، تقویٰ اور قربانی کا درس حاصل کیا ہوتا ہے۔ عید کے دن یہی مسلمان اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے عبادت اور دعا کے ذریعے اس کی رحمت اور مغفرت طلب کرتے ہیں۔ عید کا دن گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے کی علامت بھی ہے۔

عید کے دن کی رسومات

عید کا دن نمازِ فجر سے شروع ہوتا ہے۔ مسلمان غسل کرتے ہیں، نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں اور خوشبو کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر عید الفطر کی خصوصی نماز ادا کرنے کے لیے عیدگاہ یا مساجد کی جانب جاتے ہیں۔ نماز سے قبل صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے تاکہ غریب اور ضرورت مند افراد بھی اس خوشی میں شامل ہوسکیں۔

نمازِ عید الفطر شیعہ فقہ کے مطابق واجب نہیں بلکہ مستحب مؤکد ہے، خاص طور پر غیبتِ امام مہدی (عجل اللہ فرجہ) کے دور میں۔ یہ نماز دو رکعت ہوتی ہے جس میں قنوت کے ساتھ مخصوص تکبیریں پڑھی جاتی ہیں۔

نماز کے بعد خطبہ دیا جاتا ہے جس میں دینی، اخلاقی اور معاشرتی نکات بیان کیے جاتے ہیں۔ عید کی نماز امام مہدی (عج) کے ظہور کے بعد دوبارہ واجب ہوگی، جسے امام خود یا ان کا نائب ادا کروائے گا۔

نماز عید کی ادائیگی کے بعد لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارک باد دیتے ہیں اور محبت و اخوت کا اظہار کرتے ہیں۔ گھر واپس لوٹ کر میٹھی اشیاء، خاص طور پر سویاں، شیر خورمہ اور دیگر روایتی کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔

صدقہ فطر کی اہمیت

صدقہ فطر کی ادائیگی عید الفطر کے دن کی اہم عبادتوں میں سے ہے۔ اس کا مقصد غرباء و مساکین کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کو ہر مسلمان مرد، عورت، بچے اور بوڑھے پر فرض قرار دیا ہے۔ اس صدقے سے معاشرے میں مساوات، ہمدردی اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوتی ہے۔

شیعہ مکتب میں عید الفطر کی ایک اہم شرط "زکاة الفطرہ" ہے، جو ہر بالغ، عاقل اور صاحبِ استطاعت فرد پر واجب ہے۔ یہ زکاة عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے تاکہ مستحقین تک وقت پر پہنچ جائے اور وہ بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ زکاة الفطرہ عام طور پر گندم، جو، کھجور یا ان کی قیمت کے مطابق ادا کی جاتی ہے۔

پاکستان اور بھارت میں عید کی روایتیں

پاکستان اور بھارت میں عید الفطر بڑے جوش و جذبے سے منائی جاتی ہے۔ رمضان المبارک کے اختتام پر چاند دیکھنے کی روایت خاص اہمیت رکھتی ہے۔ جیسے ہی عید کا چاند نظر آتا ہے، لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ بازاروں اور گلیوں کو رنگ برنگی روشنیوں اور جھنڈیوں سے سجایا جاتا ہے۔ رات دیر تک خریداری جاری رہتی ہے اور بازاروں کی رونقیں قابلِ دید ہوتی ہیں۔

صبح عید کے دن بچے بڑے سبھی نئے کپڑے پہن کر نمازِ عید ادا کرنے جاتے ہیں۔ واپسی پر بزرگوں سے عیدی لینے اور رشتہ داروں سے ملنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ رشتہ داروں اور دوستوں کی ملاقاتیں ہوتی ہیں، تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور خوشیوں کو مزید بڑھانے کے لیے کھانوں کی محفلیں سجائی جاتی ہیں۔

عید اور معاشرتی روابط

عید الفطر معاشرے میں باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔ اس دن اختلافات کو بھلا کر محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ رنجشوں کو دور کر کے ایک دوسرے کو گلے لگایا جاتا ہے اور اجتماعی سطح پر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا جاتا ہے۔

عید کی تیاری اور خواتین کا کردار

عید کی تیاریاں کئی دن قبل سے شروع ہوجاتی ہیں۔ گھروں کی صفائی، نئے کپڑوں کی خریداری اور خاص پکوانوں کی تیاری اس کا حصہ ہیں۔ خواتین خاص طور پر اس دن کو یادگار بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ گھر کو سجانے، خاص پکوان تیار کرنے اور خاندان کے افراد کے لیے بہترین انتظامات کرنے میں

مصروف ہوتی ہیں۔

عید اور اہلِ بیت علیہم السلام

شیعہ عقیدے میں عید کا اصل تصور اہلِ بیت کی تعلیمات سے وابستہ ہے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

"عید اُس کی ہے جس کے روزے قبول ہوئے، اور جس کی عبادات محفوظ رہیں۔"

لہٰذا عید صرف نئے کپڑے، مہندی، یا کھانے پینے کا نام نہیں بلکہ تقویٰ، عبادت کی قبولیت، اور اللہ کے ساتھ تعلق کی تازگی کا دن ہے۔

شیعہ علما اور خطباء اس دن اہلِ بیت کی قربانیوں کو یاد دلاتے ہیں، اور غیبتِ امام مہدی (عج) کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ بعض مقامات پر عید کے دن بھی دعائے ندبہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جو کہ امام زمانہ (عج) سے ملاقات کی تڑپ کو ظاہر کرتی ہے۔

عید اور بچوں کی خوشیاں

عید کا دن بچوں کے لیے خاص خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ نئے کپڑوں کی خوشی، عیدی لینے کی خواہش اور مزے مزے کے کھانے بچوں کو بے انتہا مسرت دیتے ہیں۔ تفریحی مقامات پر جانا، کھیل کود اور دوستوں سے ملاقاتیں ان کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتی ہیں۔

عید کی خوشیوں میں غرباء کا خیال

اسلام نے ہمیشہ غرباء و مساکین کے حقوق پر زور دیا ہے۔ عید کے دن خاص طور پر نادار اور مستحق لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لوگ صدقات، زکوٰۃ اور عطیات کے ذریعے غریبوں

کی مدد کرتے ہیں تاکہ کوئی بھی عید کی خوشیوں سے محروم نہ رہے۔

عصرِ غیبت اور عید

چونکہ امام مہدی (عج) غیبت میں ہیں، اس لیے شیعہ مومنین عید الفطر کے دن خاص طور پر ان کے ظہور کی دعا کرتے ہیں۔ کئی جگہوں پر لوگ دعائے ندبہ پڑھتے ہیں، جو امام کے فراق میں گریہ و زاری سے بھری ہوئی دعا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیعہ مومنین عید کی خوشی کو بھی امام زمانہ (عج) کی یاد کے بغیر مکمل نہیں سمجھتے۔

عید اور عالمی سطح پر مسلم اتحاد

عید الفطر مسلمانوں کے لیے عالمی سطح پر اتحاد و یکجہتی کا پیغام بھی دیتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس دن ایک ہی جذبے کے تحت خوشیاں مناتے ہیں، جو عالم اسلام کے اتحاد و یگانگت کی علامت ہے۔

اختتامیہ

عید الفطر نہ صرف خوشیوں، عبادت اور شکر کا نام ہے بلکہ یہ انسانی ہمدردی، محبت اور اتحاد کا درس بھی دیتی ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنا ہی حقیقی خوشی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس خوبصورت تہوار کی اصل روح کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور اپنی زندگیوں میں اس کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنائیں۔