حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت از نہج البلاغہ

نہج البلاغہ کا اجمالی تعارف

نہج البلاغہ وہ عظیم المرتبت کتاب ہے جس کو دونوں فریق کے علماء معتبر سمجھتے ہیں، یہ مقدس کتاب امام علی علیہ السلام کے پیغامات اور گفتار کا مجموعہ ہے جس کو علامہ بزرگوار شریف رضی علیہ الرحمہ نے تین حصوں میں ترتیب دیا ہے جن کا اجمالی تعارف کچھ یوں ہے:

1۔ حصہ اول: خطبات

نہج البلاغہ کاسب سے پہلا اور مھم حصہ امام علی علیہ السلام کے خطبات پر مشتمل ہے جن کو امام علیہ السلام نے مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے، ان خطبوں کی کل تعداد (341) خطبے ہیں جن میں سب سے طولانی خطبہ 192 ہے جو خطبہٴ قاصعہ کے نام سے مشہور ہے اور سب سے چھوٹا خطبہ 59 ہے۔

2۔ حصہ دوم: خطوط

یہ حصہ امام علیہ السلام کے خطوط پر مشتمل ہے، جو آپ نے اپنے گورنروں اور دوستوں، دشمنوں، قاضیوں اور زکوٰة جمع کرنے والوںکے لئے لکھے ہیں، ان سبب میں طولانی خط 53 ہے جو آپ نے اپنے مخلص صحابی مالک اشتر کو لکھا ہے اور سب سے چھوٹا 79 ہے جو آپ نے فوج کے افسروں کو لکھا تھا۔

3۔ حصہ سوم: کلمات قصار

نہج البلاغہ کا آخری حصہ 480 چھوٹے بڑے حکمت آمیز کلمات پر مشتمل ہے جن کو کلمات قصار کھا جاتا ہے، یعنی مختصر کلمات، ان کو کلمات حکمت اور قصار الحِکم بھی کھا جاتا ہے، یہ حصہ اگرچہ مختصر بیان پر مشتمل ہے لیکن ان کے مضامین بہت بلند پایہ حیثیت رکھتے ہیں جو نہج البلاغہ کی خوبصورتی کو چار چاند لگادیتے ہیں۔

مقدمہ

کسی شخصیت کی شناخت اور پہنچان کا سب سے مھم ذریعہ یہ ہے کہ وہ شخصیت اپنی پہچان خود کرائے، چونکہ ھر شخص اپنے آپ کو دوسروں کی نسبت بہتر پہچانتا ہے، اسی قاعدے کی بنا پر آئیں امام علی علیہ السلام کی شخصیت کو خود اُن کی زبان سے پہچانیں۔

چونکہ ایک طرف سے امام معصوم کی مکمل شناخت عام انسانوں کی قدرت سے باھر ہے اس لئے امام علی علیہ السلام کی ملکوتی شخصیت کو ان کے بیانات عالیہ سے پہچانیں اور اُن کی سیرت طیبہ کی معرفت حاصل کریں، اور اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں۔

البتہ یھاں پر ایک اعتراض ذہن میں آسکتا ہے کہ اپنی تعریف اپنے منھ کرنا اسلامی نقطہ نظر اور اسلامی تعلیمات کے مخالف ہے، آیا امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں جو اپنی مدح و تعریف فرمائی ہے یہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ھم آہنگ نھیں ہے؟

اس مختصر تحریر میں ھم اس اعتراض کا جواب بیان کریں گے تاکہ امام عالی مقام کی ملکوتی شخصیت اظھر من الشمس ہوجائے، انشاء اللہ، خداوندکریم ھماری مدد فرمائے اور اپنی توفیقات سے نوازے۔

پہلا باب

اپنی تعریف کی دلیلیں

اگر کوئی شخص اپنی ایسی تعریف کرے جو خلاف واقع ہو تو وہ قطعاً حرام ہے اور اگر وہ شخص اپنی تعریف کرنے میں سچا ہو اور تعریف حقیقت کے مطابق ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:

ایک مرتبہ ایسی تعریف بیان کرنے کی مصلحت تقاضا نھیں کرتی، اسی صورت میں اگر کوئی شخص اپنی تعریف کرتا ہے تو یہ تعریف قابل مذمت ہے، لیکن اگر تعریف سچی ہو اور مصلحت بھی اس کا تقاضا کرے تو اس صورت میں اپنی تعریف کرنا ضروری ہے۔

اس مذکورہ بیان کی روشنی میں دیکھیں اور غور فرمائیں کہ امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اپنی جو تعریف بیان فرمائی ہے وہ صداقت پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مصلحت نے اس کا تقاضا کیا تو امام علیہ السلام نے پہنچان اور شناخت کو لازم سمجھا، ھم ذیل میں چند دلیلوں کے پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت واضح اور روشن ہوجائے۔