کیا تمام اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نیک افراد تھے؟

 

"پہلے مہاجرین" کے لئے قرآن کی بیان کردہ عظمت کے پیش نظر بعض برادران اہل سنت یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ لوگ آخری عمر تک کوئی خلاف شریعت کام نہیں کرسکتے، لہٰذا کسی چون و چرا کے بغیر سب کو قابل احترام شمار کیا جائے، اس کے بعد اس موضوع کو تمام "اصحاب" کے لئے عام کردیا چونکہ "بیعتِ رضوان" میں اصحاب کی مدح کی گئی ہے، لہٰذا ان کی نظر میں اصحاب کے متعلق کوئی تنقید قابلِ قبول نہیں ہے چاہے ان کے اعمال کیسے ہی ہوں!۔

جیسا کہ مشہور مفسر موٴلف المنار شیعوں پر شدید اعتراض کرتے ہیں کہ یہ لوگ مہاجرین پر کیوں انگلی اٹھاتے ہیں، اور ان پر کیوں تنقید کرتے ہیں!! جبکہ وہ اس بات پر توجہ نہیں کرتے کہ صحابہ کرام کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ اسلام اور تاریخ اسلام کے برخلاف ہے۔

قارئین کرام! بے شک "صحابہ" خصوصاً پہلے مہاجرین کا ایک خاص احترام ہے، لیکن یہ احترام اسی وقت تک ہے جب تک وہ صحیح راستہ پر قدم بڑھاتے رہیں، لیکن جب بعض صحابہ اسلام کے حقیقی راستہ سے منحرف ہو جا ئیں تو پھر اصولی طور پر قرآن مجید کا کچھ اور ہی نظریہ ہوگا۔

مثال کے طور پر ہم کس طرح "طلحہ" اور "زبیر" سے یونہی گزر سکتے ہیں جبکہ انھوں نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ کے جانشین اور خود اپنے انتخاب کردہ خلیفہٴ رسول کی بیعت کو توڑ دیا، ہم کیسے ان کے دامن پر لگے جنگ جمل کے سترہ ہزار مسلمانوں کے خون کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟! اگر کوئی شخص کسی ایک بے گناہ کا خون بہائے تو وہ خدا کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکتا، اتنے لوگوں کا خون تو بہت دور کی بات ہے، کیا اصولی طور پر جنگ جمل میں "حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے ساتھی" اور "طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی دیگر صحابہ " دونوں کو حق پر مانا جاسکتا ہے؟

کیا کوئی بھی عقل اور منطق اس واضح تضا د اورٹکراؤکو قبول کرسکتی ہے؟! اور کیا ہم"صحابہ کی عظمت" کی خاطر اپنی آنکھوں کو بند کرلیں اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ کی وفات کے بعد پیش آنے والے تاریخی حقائق کو نظر انداز قرار دے دیں اور اسلامی و قرآنی قاعدہ "إنَّ اٴکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اٴتقَاکُم"(1)کو پاؤں تلے روند ڈالیں؟! واقعاًکیا یہ غیر منطقی فیصلہ ہے؟!

اصولی طور پر اس چیزمیں کیا ممانعت ہے کہ کوئی شخص ایک روز بہشتیوں کی صف میں اور حق کا طرفدار ہو، لیکن اس کے بعد دشمنان حق اور دوزخیوں کی صف میں چلا جائے؟ کیا سب معصوم ہیں؟! اور کیا ہم نے اپنی آنکھوں سے بہت سے لوگوں کے حالات بدلتے نہیں دیکھے ہیں؟!

"اصحاب ردّہ" (یعنی رحلت پیغمبر کے بعد کچھ اصحاب کے مرتد (وکافر) ہوجانے) کا واقعہ شیعہ اور سنی سب نے نقل کیا کہ خلیفہٴ اول نے ان سے جنگ کی اور ان پرغلبہ حاصل کرلیا، کیا "اصحاب ردّہ" کو کسی نے نہیں دیکھا کیا وہ صحابہ کی صف میں نہیں تھے؟!

اس سے کہیں زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس تضاداو رٹکراؤ سے بچنے کے لئے بعض لوگوں نے "اجتہاد" کا سہارا لیا اور کہتے ہیں کہ "طلحہ، زبیر اور معاویہ" نیز ان کے ساتھی مجتہد تھے اور انھوں نے اپنے اجتہاد میں غلطی کی، لیکن وہ گناہگار نہیں ہیں بلکہ اپنے ان اعمال پر خدا کی طرف سے اجر و ثواب پائیں گے!!

واقعاً کتنی رسوا کن دلیل ہے؟ جانشینِ رسول کے مقابلہ میں آجانا، اپنی بیعت کو توڑ دینا، اور ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا اور وہ بھی جاہ طلبی اور مال و مقام کے لالچ میں یہ سب کچھ کرنا کیا کوئی ایسا موضوع ہے جس کی برائی سے کوئی بے خبر ہو؟ کیا اتنے بے گناہوں کا خون بہانے پر خداوندعالم اجر و ثواب دے سکتا ہے؟! اگر کوئی شخص اس طرح بعض اصحاب کے ظلم و ستم سے ان کو بَری کرنا چاہے تو پھر دنیا میں کوئی گناہگار باقی نہ بچے گا اور سبھی قاتل و ظالم و جابر اس منطق کے تحت بَری ہوسکتے ہیں۔ اصحاب کااس طرح سے غلط دفاع کرنا خود اسلام سے بد ظن ہونے کا سبب بنتا ہے۔

اس بنا پر ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم سب کے لئے خصوصاً اصحاب پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ کے احترام کے قائل ہوں، لیکن جب وہ حق و عدالت کی راہ اور اسلامی اصول سے منحرف ہوجائیں تو پھر ان کا کوئی احترام نہیں ہوگا۔(2)

اہل سنت کے متعدد مفسرین نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ" حمید بن زیاد" کا کہنا ہے: "میں محمد بن کعب قرظی کے پاس گیا اور کہا: اصحاب پیغمبر کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو اس نے کہا: "جَمِیْعُ اٴصْحَابِ رَسُولِ اللهِ  صلی اللہ علیہ وآلہ فِی الجَنّةِ مُحْسِنُھُمْ وَ مُسِیئھُم!" (یعنی تمام اصحاب پیغمبر جنّتی ہیں چاہے وہ نیک ہوں یا گنہگار!) میں نے کہا: یہ بات تم کیسے کہہ رہے ہو؟ تو اس نے کہا: اس آیت کو پڑھو: یہاں تک کہ ارشاد ہوتا ہے:(3)،اس کے بعد کہا کہ تابعین کے لئے صحابہ کی صرف نیک کاموں میں اتباع اور پیروی کرنے کی شرط کی گئی ہے، (صرف اسی صورت میں اہل نجات ہیں، لیکن صحابہ کے لئے اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے)(4)

لیکن ان کا یہ دعویٰ متعدد دلائل کی وجہ سے باطل اور غیر قابل قبول ہے، کیونکہ: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آیہٴ شریفہ میں مذکورہ حکم تابعین کے لئے بھی ہے، تابعین سے وہ مسلمان مراد ہیں جو پہلے مہاجرین اور انصار کی پیروی کریں، اس بنا پر بغیر کسی استثنا کے پوری امت کو اہل نجات اور جنتی ہونا چاہئے۔

اور جیسا کہ محمد بن کعب کیحدیث میں اس چیز کا جواب دیا گیا کہ خداوندعالم نے تابعین میں "نیکی کی شرط" لگائی ہے یعنی صحابہ کے نیک کاموں میں پیروی کریں، ان کے گناہوں کی پیروی نہیں، لیکن یہ گفتگو بہت ہی عجیب ہے۔ کیونکہ اس کا مفہوم اضافہٴ "فرع" بر "اصل" کی طرح ہے یعنی جب تابعین اور صحابہ کے پیروکاروں کے لئے نجات کی شرط یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں ان کی پیروی کی جائے تو پھر بطریق اولیٰ یہ شرط خود صحابہ میں بھی ہونی چاہئے۔

بالفاظ دیگر: خداوندعالم مذکورہ آیت میں فرماتا ہے: میری رضایت اور خوشنودی پہلے مہاجرین و انصار اور ان کی پیروی کرنے والوں کے شامل حال ہوگی جو ایمان اور عمل کے لحاظ سے صحیح تھے،نہ یہ کہ سب مہاجرین و انصار چاہے نیک ہوں یا گناہگار اپنے کو رحمت الٰہی میں شامل سمجھیں، لیکن تابعین میں خاص شرط کے تحت قابل قبول ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ موضوع عقلی لحاظ سے بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ عقلی لحاظ سے صحابہ اور غیر صحابہ میں کوئی فرق نہیں ہے، ابو جہل اوراسلام لاکر پھر جا نے والے میں کیا فرق ہے ؟!

پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ کے برسوں اور صدیوں بعد اس دنیا میں جو افراد پیدا ہوئے اور انھوں نے اسلام کی راہ میں بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں اور جن کی قربانی پہلے مہاجرین و انصار سے کم نہیں ہے، بلکہ ان کا یہ بھی امتیاز ہے کہ انھوں نے پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ کو دیکھے بغیر پہچانا اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہ پر ایمان لائے، تو کیا ایسے افراد رضایت و خوشنودی الٰہی کے حقدار نہیں ہیں؟!

جو قرآن کہتا ہو کہ تم میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک وہ شخص معزز و محترمہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگارہو، تو پھر قرآن اس غیر منطقی امتیاز کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟! جس قرآن کی مختلف آیات میں ظالمین اور فاسقین پر لعنت بھیجی گئی ہے اور ان کو عذاب الٰہی کا مستحق قرار دیا گیا ہو تو پھر صحابہ کے سلسلہ میں اس غیر منطقی معصومیت کو کیونکر قبول کرسکتا ہے؟ اور کیا اس لعنت اور چیلنج میں استثنا کی کوئی گنجائش ہے؟ تاکہ کچھ (صحابہ) اس سے الگ ہوجائیں؟ کیوں؟ او رکس لئے؟

ان سب کے علاوہ کیا اس طرح کا حکم کرنا صحابہ کو ہری جھنڈی دکھانا نہیں ہے جس سے ان کا کوئی بھی کام گناہ اور ظلم شمار نہ ہو؟

تیسری بات یہ ہے کہ ایسا حکم کرنا، اسلامی تاریخ کے بر خلاف ہے، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے تھے جو پہلے مہاجرین و انصار میں تھے لیکن بعد میں راہ حق سے منحرف ہوگئے اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ ان پر غضبناک ہوئے (جبکہ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ کا غضبناک ہونا خدا کے غضب اور عذاب کا موجب ہے) کیا "ثعلبہ بن حاطب انصاری" کا واقعہ نہیں پڑھا کہ وہ کس طرح دین سے منحرف ہوگیا اور پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ اس پر غضبناک ہوئے۔

واضح طور پر یوں کہا جائے کہ اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ تمام اصحاب پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ کسی بھی طرح کے گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے، وہ معصوم تھے اور معصیت سے پاک تھے ، تو یہ بالکل وا ضح چیزوں کے انکار کی طرح ہے۔

اور اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ انھوں نے گناہ کئے ہیں اور خلاف (دین)کام انجام دئے ہیں لیکن پھر بھی خداوندعالم ان سے راضی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گناہگاروں سے بھی (نعوذ باللہ) خدا راضی ہوسکتا ہے!

"طلحہ و زبیر" جن کا شمار پہلے اصحاب پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ میں ہوتا تھا اسی طرح زوجہ پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ جناب "عائشہ" کو جنگ جمل کے سترہ ہزار بے گناہ مسلمانوں کے خون سے کون بری کرسکتا ہے؟ کیا خداوندعالم اس خون کے بہنے سے راضی تھا؟۔

کیا خلیفہ پیغمبر اکرم حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ رسول خدا نے ان کو خلیفہ معین نہیں کیا تھالیکن کم سے کم اس بات کو تو اہل سنت بھی قبول کرتے ہیں کہ آپ کی پوری امت کے اجماع کے ذریعہ خلیفہ بنایا گیاتھا، توا گرجانشین رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ اور ان کے وفادار ساتھیوں کے مقابلہ میں تلوار کھینچ لی جائے تو کیا اس کام سے خداوندعالم راضی اور خوشنود ہوگا؟۔ حقیقت یہ ہے کہ "صحابہ کو بے گناہ" ماننے والوں کے اصرار اور اس بات پر بضد ہونے کی وجہ سے پاک و پاکیزہ اسلام کو بد نام کردیا ہے، وہ اسلام جس کی نظر میں لوگوں کی عظمت ایمان و اعمال صالحہ ہے۔

اس سلسلہ میں اخری بات یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں جس رضا اور خوشنودی الٰہی کی بات کی گئی ہے وہ ایک عام عنوان کے تحت ہے، اور وہ "ہجرت"، "نصرت"، "ایمان"، اور "عمل صالح" ہے، لہٰذا تمام صحابہ اور تابعین اگر ان عناوین کے تحت قرار پائیں گے تو رضائے الٰہی ان کے شامل حال رہے گی، لیکن اگر وہ ان عناوین سے خارج ہوجائیں تو پھر رضایت اور خوشنودی الٰہی سے بھی خارج ہوجائیں گے

________________________________________

(1) سورہ ، حجر، آیت 13، "بے شک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے"۔

(2) تفسیر نمونہ ، جلد7، صفحہ 263 (3) سورہ توبہ ، آیت100 "اور مہاجرو انصار میں سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے نیکی میں ان کا اتباع کیا ہے ،ان سب سے خدا راضی ہوگیا ہے اور یہ سب خداسے راضی ہیں"۔

(4) تفسیر المنار اور تفسیر فخر رازی مندرجہ بالا آیت کے ذیل میں رجوع فرمائیں