شفاعت کی حقیقت و حقدار

شفاعت کی تعریف

شفاعت عربی زبان میں''دو ایک جیسی ''چیزوں کو ضمیمہ کرنے اور گناہگاروں کے لئے عفو وبخشش کی سفارش کرنے کو کہتے ہیں،شفیع اور شافع وہ شخص ہے جو گناہگاروں کی مدد کرنے کے لئے ان کے ہمراہ ہواور ان کے حق میں شفاعت کرے۔

شفاعت قرآن کی رو شنی میں

خدا وندعالم سورۂ طہ میں ارشاد فرماتا ہے: ( یوم ینفخ فی الصور)(…یومئذٍلا تنفع الشفا عة اِلّامن أَذن لہ الرّحمن و رضیَ لہ قولاً )   جس دن صور پھونکا جائے گا ....اس دن کسی کی شفاعت کار آمد نہیں ہوگی ماسواان لوگوں کے جنھیں خداوند رحمان نے اجازت دی ہو اور ان کی گفتار سے راضی ہو۔ سورۂ مریم میں ارشاد ہوتا ہے: (لا یملکون الشفا عة اِلاّ من اْتّخذ عند الرحمن عھداً) لوگ ہر گز حق شفاعت نہیں رکھتے جزان کے جوخداوند رحمن سے عہد وپیمان کر چکے ہیں۔ سورۂ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے:(…عسیٰ ان یبعثک ربّک مقا ماً محموداً)

امید ہے کہ خداوند عالم تمھیںمقام محمود ( مقام شفاعت) پر فائز کرے گا.  سورۂ انبیاء میں ارشاد ہوتا ہے: (لا یشفعون الا لمن ارتضیٰ وھم من خشیتہ مشفقون)وہ لوگ (شائشتہ بندے) بجز اس کے جس سے خدا راضی ہو کسی اور کی شفاعت نہیںکریں گے اور وہ لوگ خوف الٰہی سے خوف زدہ ہیں ۔ سورہ اعراف میں ارشادہوتا ہے: ( الذین اتّخذ وادینھم لھواً ولعباً وغرّ تھم الحیاة الدنیا فالیوم ننساھم کما نسوا لقائَ یومھم ھذا)(… یوم یأتی تأویلہُ یقولُ الذین نسوہ من قبل قد جاء ت رُسُل ربّنا بالحقّ فھل لنا من شفعاء فیشفعوا لنا…) جن لوگوں نے اپنے دین سے کھلواڑ کیا اوراسے لہو و لعب بنا ڈالا اور زندگانی دنیا نے انھیں مغرور بنا دیا آج (قیامت ) کے دن ہم انھیں فراموش کر دیں گے جس طرح کہ انھوں نے آج کے دن کے دیدار کو فراموش کر دیا… جس دن حقیقت امر سامنے آجائیگی،جن لوگوں نے اس سے پہلے گزشتہ میںاسے فراموش کر دیا تھا کہیں گے: سچ ہے ہمارے ربّ کے رسولوں نے حق پیش کیا ،آیا کوئی شفاعت کرنے والا ہے جو ہماری شفاعت کرے؟

آیات کی تفسیر

جس دن صور پھونکا جائے گا توکسی کی شفاعت کار آمد نہیںہوگی جز خدا کے ان صالح بندوں کے جنھیں خدا نے اجازت دی ہو اوران کی گفتار سے راضی ہو۔ نیز کوئی بھی شفاعت کا مالک نہیں ہے سوائے ان لوگوں کے جو خدا وند عالم سے عہد وپیمان رکھتے ہیں یعنی انبیاء ، اوصیاء اور خدا کے صالح بندے جو ان کے ساتھ ہیں۔ شفاعت مقام محمودہے جس کا خدا نے حضرت خاتم الانبیائۖ سے وعدہ کیا ہے اور انبیاء بھی صرف ان لوگوںکی شفاعت کریں گے جن کی شفاعت کے لئے خدا راضی ہو، یہی وہ دن ہے جس دن مغرور افراد اور وہ لوگ جنھیں زندگانی دنیا نے دھوکا دیا ہے جب کہ ان کا کوئی شفیع نہیں ہوگا کہیں گے:آیا کوئی ہمارا بھی شفیع ہے جو ہماری شفاعت کرے؟

 شفاعت روایات کی رو شنی میں

عیون اخبار الرضا نامی کتاب سے نقل کے مطابق بحار میں ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے اپنے والد امام موسی کاظم علیہ السلام سے اور انھوں نے اپنے والد سے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تک روایت کی ہے کہ آپ(امیر المومنین ) نے فرمایا : رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: ''من لم یومن بحوضی۔ الحوض: الکوثر۔ فلا أو ردہُ اﷲ حوضی و مَن لم یؤمن بشفا عتی فلا اَنا لہُ اﷲ شفا عتی…'' جو شخص میرے حوض(حوض کوثر) پر اعتقاد وایمان نہیں رکھتا خدا وند عالم ا سے میرے حوض پر وارد نہ کرے اور جو میری شفاعت پر ایمان نہیں رکھتا ، خدا وند عالم اسے میری شفاعت نصیب نہ کرے…۔ راوی روایت کے اختتام پر امام رضا سے سوال کرتا ہے اے فرزند رسول ! خدا وند عالم کے اس قول کے کیا معنی ہیں کہ فرماتا ہے:''ولایشفعون الاّ لمن ارتضی''  شفاعت نہیں کر یں گے مگر ان کی جن سے خدا راضی ہو۔  فرمایا :آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف ان کی شفاعت کریںگے جن کے دین سے خدا راضی و خوشنود ہو گا۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: ''الصیام والقرآن یشفعان للعبد یوم القیامة ، یقول الصیام : أی ربّ منعتہ الطّعام و الشھواتِ با لنھار فشفعنی فیہ و یقول ال قرآن : منعتہ النوم باللیل فشفّعنی فیہ ، قال:فیشفعان'' قیامت کے دن روزہ اور قرآن خدا کے بندوں کی شفاعت کریں گے ، روزہ کہے گا:خدا وندا! میں نے اسے پورے دن کھانا کھانے اور خواہشات سے روکا ہے، لہٰذا مجھے اس کا شفیع قرار دے اور قرآن کہے گا: میںنے اسے رات کی نیند سے روکاہے،لہٰذا مجھے اس کا شفیع قرار دے ،فرمایا: اس طرح اس کی شفاعت کریں گے۔

حضرت امام علی علیہ السلام کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا ہے: '' ثلاثة یشفعون اِلی اﷲ عزّو جلّ فیشفّعون: الأنبیاء ثُّم العُلماء ثُّم الشھدٰاء' خدا کے نزدیک تین گروہ ایسے ہیں جو شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول ہوگی: انبیائ،علماء اور شہدا ء ۔ سنن ابن ماجہ میں رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہسے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: (یشفع یوم القیامة ثلاثة: الأنبیاء ثُّم العلمائُ ثُّم الشھداء) قیامت کے دن تین گروہ شفاعت کر یں گے:انبیاء ،علماء اور شہداء۔ بحار الانوار میں امام جعفر صادق ـسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کی شفاعت کے بارے میں قیامت کے دن ایک حدیث ہے جس کے آخر میں یہ ذکر ہوا ہے : ''اِ نَّ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ یومئذٍ یخر ساجداً فیمکُث ما شائَ اﷲ فیقولُ اﷲ عزّ و جل: أرفع رأسک و أشفع تُشفع، وسل تُعط ،و ذٰلک قولہُ تعالیٰ: عسیٰ ان یبعثک ربّک مقاماً محموداً'' رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ اس دن سجدہ میں گر پڑیں گے اور جب تک خدا چاہے گا سجدے میں رہیں گے، اس کے بعد خداوندعزوجل فرمائے گا اپنا سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو تاکہ تمہاری شفاعت قبول ہو، مانگو تا کہ تمہاری خواہش پوری کی جائے یہ وہی خدا وند عالم کا قول ہے کہ فرمایا ! تمہارا رب تمھیں مقام محمود تک پہنچا جائے گا۔ اس خبر کی تفصیل تفسیر ابن کثیر وطبری و دیگر لوگوں کی کتابوں میں کچھ الفاظ کے فرق کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔ ترمذی نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرما یا: ''شفا عتی لأہل الکبائرمن أُمتی''۔ میری شفاعت میری امت کے گنا ہان کبیرہ انجام دینے والوں کے لئے ہے۔

نتیجہ 

شفاعت سے متعلق ذکر شدہ تمام آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن شفاعت ہر شخص کے لئے وہ بھی جس طرح چاہے نہیں ہے بلکہ شفاعت خدا وند عالم کی مشیت کے اعتبار سے ہے جو ان اعمال کی جز ا ہے جنہیں خدا وندعالم نے اسباب شفاعت قرار دیا ہے ،جیسے یہ کہ کسی مسلمان بندہ نے کسی واجب کے بارے میں کوتاہی کی ہو اور دوسری طرف اپنی دنیا وی زندگی میں تہہ دل سے رسول اور اہل بیت کا دوست رہا ہو نیز انھیں اس لئے دوست رکھتا تھا کہ وہ خدا کے اولیاء ہیں ،یا یہ کہ کسی عالم کا اس لحاظ سے اکرام و احترام کرتاکہ وہ اسلام کا عالم ہے یا کسی مومن ِ صالح کے ساتھ نیکی کی ہو جو کہ بعد میں درجہ شہادت پر فا ئز ہواہو، خدا وند عالم بھی اسے اس قلبی محبت اور عملی اقدام کی بنا پر جزا دے گا تا کہ ا س واجب کے سلسلے میں جو کوتاہی کی ہے اسکی تلا فی ہو جائے۔ ٹھیک اس کے مقابل یہ بات بھی ہے کہ بُرے اعمال اور گناہوں کے آثار نیک اعمال کی جز اکو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں