ایک مقررہ حد تک مہلت ہے رب العالمین کی مگر اس کے بعد؟

"اگر لوگوں کے گناہ پر اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار باقی نہ رہتا، لیکن وہ تو انہیں ایک وقت مقرر تک ڈھیل دیتا ہے ، جب ان کا وقت آجاتا ہے تو وہ ایک ساعت تک نہ پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں"

تفاسیر میں "ایک مقرروقت" کے بارے میں متعدد تفاسیر مذکور ہیں جبکہ اسی ضمن میں چونکہ قرآن مجید کی بعض آیات بعض آیات کی وضاحت کرتی ہیں مثلا سورت انعام کی آیت 2 اور سورت اعراف کی آیت 34 کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس "مقرروقت" سے مراد وقت موت ہے  یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ آخر وقر زندگی تک مہلت دیتا ہے تاکہ حجت تمام ہوسکے کہ کاش ظالم سے تائب ہوکر ہدایت پالے اور خود کو راہ مستقیم پر گامزن کر لے اور اسی سبب اللہ تعالیٰ سے رجوع کر لے مگر فقط امر موت اس مہلت کو ختم کردیتا ہے کہ اس کے صادر ہوتے ہی کوئی راہ رجوع نہیں ہوتی ۔

مزید توضیح کے لئے سورت انعام اور سورت الاعراف کی مذکورہ بالا آیات کی وضاحت ہے۔

قرآن کریم ہر اس بدعت سے اظہار برآت کیا ہے جن میں مثلاً "بیٹیوں کی پیدائش اور یہ اعتقاد رکھنا کہ ملائکہ مؤنث ہیں "

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اور وہ اپنے لئے جو ناپسند رکھتے ہیں اللہ کے لئے ثابت کرتے ہیں

 

پس یہ ایک انتہائی عجیب تناقض ہے جیسا کہ قرآن مجید کی سور نجم میں ہے "یہ تو اب بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے" کہ اگر ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں تو بیٹیاں ہونا ایک نہایت قبول کرنے والا مورد ہونا چاہیئے پس اس کی ولادت پر اتنی کراہت کیوں؟ اور اگر یہ چیز قابل قبول نہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے کیوں قبول کرتے ہو؟

پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے

"اور ان کی زبانیں جھوٹی باتیں بیان کرتی ہیں کہ ان کے لئے خوبی ہے"

پس یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں روز قیامت کے وعد و وعید کے بارے میں خبر دار کیا ہے مگر کیا وہ یوم قیامت پر اعتقاد رکھتے تھے؟

بے شک وہ قیامت پر مطلق ایمان نہیں رکھتے تھے بلکہ جسمانی محشور ہونے پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ قائل تھے کہ انسان مرنے کے بعد دوسری مادی چیزمیں بدل جاتا ہے ۔

اور مزید یہ کہ اسے قضیہ شرطیہ میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر یوم قیامت ہے بھی تو ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں اور نعمات سے نوازے جائیں گے باوجود اس کے کہ وہ قربت الہیہ میں نہیں مگر دعویٰ قربت رکھتے تھے ۔

اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ وہ لوگ بیٹیوں کا باپ ہونا برا جانتے تھے اور بیٹوں کو نعمت اور خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا تھا

جبکہ اول تفسیر حقیقت کے زیادہ قریب تر ہے کہ اور اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ یہ لوگ اوائل جہنم میں داخل ہونت والوں میں سے ہیں

منسلکات