امام حسین علیہ السلام کے انصار کا مطالعہ درحقیقت امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے اصحاب کی حقیقت کو سمجھنے سے جڑا ہوا ہے، کیونکہ امام مہدیؑ کی الٰہی ذمہ داری، جب وہ اپنی بابرکت حکومت قائم کریں گے، واقعہ کربلا سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ اسی لیے دونوں انقلابات کے درمیان ایک مشابہت پائی جاتی ہے۔
روایات کے مطابق، امام مہدیؑ جب ظہور فرمائیں گے تو ان کا شعار "خونِ حسینؑ" کا انتقام ہوگا اور وہ ان قاتلوں سے قصاص لیں گے جنہوں نے امام حسینؑ اور ان کے اہلِ بیت کو کربلا میں مظلومیت کے ساتھ شہید کیا۔ امام مہدیؑ ایک ایسی الٰہی تحریک کا اعلان کریں گے جو عدل و انصاف پر مبنی ہوگی اور جس کا مقصد ظلم اور جبر کو ختم کرنا ہوگا۔ ان کا نعرہ "یا لثارات الحسین" ہوگا، اور وہ اپنے جد امام حسینؑ کی مظلومیت کو یاد کریں گے، جس سے ان کے شیعہ اور محبان کے دلوں میں جوش و ولولہ پیدا ہوگا۔
امام مہدیؑ کی تحریک کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم امام حسینؑ کی قربانی کو سمجھیں، کیونکہ ان کی تحریک ایک بوسیدہ اسلامی معاشرتی ڈھانچے کے خلاف تھی جو جمود اور بے حسی کا شکار ہو چکا تھا۔ اسی طرح امام مہدیؑ کا انقلاب بھی ایسی طاقتوں کے خلاف ہوگا جو دنیا میں ظلم و ستم کو رائج کر چکی ہوں گی۔
امام مہدیؑ کے انقلاب کو ایک غیر معمولی قوت اور غیر معمولی افراد کی ضرورت ہوگی، جو ان کی حکمت عملی کو سمجھ سکیں اور ان کے منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ عملی جامہ پہنا سکیں۔ یہ لوگ وہی کردار ادا کریں گے جو امام حسینؑ کے اصحاب نے ادا کیا تھا۔
امام حسینؑ کی تحریک کو بھی اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا تھا۔ ان کے زمانے میں لوگ ایک ایسے نظام میں پھنسے ہوئے تھے جہاں ظلم کو قبول کر لینا عام سی بات سمجھی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ امام حسینؑ کی تحریک کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ یہ تحریک ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی علامت تھی۔ وہی مزاحمت امام مہدیؑ کی حکومت کو بھی درپیش ہوگی، کیونکہ دنیا کے طاقتور لوگ اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے اس تحریک کو روکنے کی کوشش کریں گے۔
امام مہدیؑ کے اصحاب کی خصوصیات
بین الاقوامی شمولیت:امام مہدیؑ کے انصار دنیا کے مختلف ممالک سے آئیں گے، اور جغرافیائی سرحدیں ان کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔ احادیث میں ذکر ہوا ہے کہ ان کے اصحاب عراق، مصر، شام، فلسطین، یمن، حجاز، ایران، ترکی، ہندوستان، چین، وسطی ایشیا، اور مغربی ممالک سے بھی ہوں گے۔مختلف سماجی طبقات سے تعلق:امام مہدیؑ کے اصحاب میں دنیا کے امیر ترین افراد بھی ہوں گے اور وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو انتہائی غریب اور محروم ہوں گے، لیکن ان سب کا ہدف ایک ہی ہوگا: امام مہدیؑ کی حکومت کے قیام میں ان کا ساتھ دینا۔خواتین کا کردار:امام مہدیؑ کے اصحاب میں خواتین بھی شامل ہوں گی، جیسا کہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ تیرہ خواتین خاص طور پر اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کریں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو بھی اس انقلاب میں ایک فعال کردار دیا جائے گا، برخلاف بعض دوسری اصلاحی تحریکوں کے جنہوں نے خواتین کو نظرانداز کیا۔علمی تنوع:امام مہدیؑ کے انصار مختلف علمی اور فکری پسِ منظر سے آئیں گے۔ کچھ روایتی مذہبی تعلیمات سے آراستہ ہوں گے، کچھ عصری علوم میں ماہر ہوں گے، اور کچھ سادہ دل مومن ہوں گے جو صرف امام مہدیؑ کی اطاعت میں اپنی جانیں نچھاور کریں گے۔بین المذاہب اتحاد:امام مہدیؑ کے انقلاب میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر ادیان کے لوگ بھی شامل ہوں گے۔ احادیث میں ذکر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نزول فرما کر امام مہدیؑ کا ساتھ دیں گے اور ان کے ماننے والے بھی امام مہدیؑ کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگ بھی جب امام مہدیؑ کی دعوت اور ان کی تعلیمات کو سمجھیں گے تو وہ بھی ان کے پیروکار بن جائیں گے، جیسا کہ امام حسینؑ کے لشکر میں حضرت وہب کلبی (جو پہلے مسیحی تھے) شامل ہو گئے تھے۔یہی صورت حال امام حسینؑ کے اصحاب کی تھی، جہاں مختلف مزاج اور علمی پسِ منظر رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ ان میں صحابی رسولؐ، خطیب، قاری، صحرائی بدو، اور دیگر مختلف پس منظر کے افراد شامل تھے، لیکن سب ایک مقصد کے تحت جمع ہوئے تھے، یعنی امام حسینؑ کی حمایت اور ظلم کے خلاف قیام۔
نتیجہ :
یہ واضح ہوتا ہے کہ امام حسینؑ اور امام مہدیؑ کی تحریکیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے: عدل و انصاف کا قیام اور ظلم و ستم کا خاتمہ۔ امام حسینؑ کی قربانی نے ظلم کے خلاف ایک نظریاتی بنیاد فراہم کی، اور امام مہدیؑ اس نظریے کو عملی شکل دیں گے۔
امام مہدیؑ کا انقلاب، امام حسینؑ کے انقلاب کا تسلسل ہوگا، اور جو حالات امام حسینؑ کے اصحاب کو درپیش تھے، وہی امام مہدیؑ کے انصار کو بھی درپیش ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امام مہدیؑ کے اصحاب کو بھی غیر معمولی صبر، استقامت، وفاداری اور قربانی کے جذبات سے سرشار ہونا ہوگا تاکہ وہ اس عالمی انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔
اللہ ہمیں امام مہدیؑ کے حقیقی انصار میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔