وہی حسین ؑ کے نقش قدم پہ چلتے ہیں
جو سرفروش کفن باندھ کر نکلتے ہیں
غم حسین ؑ میں آنسو نہیں نکلتے ہیں
بھٹکنے والوں کی خاطر چراغ جلتے ہیں
ہزار ضرب سے بڑھ کر ہے یاعلی کہنا
کہ اس کی گونج سے باطل کے دل دہلتے ہیں
غم حسین ؑ کی عظمت کوکہتے ہیں بدعت
عجب ہیں لوگ جو شبیریت سے جلتے ہیں
یہ جذب شوق شہادت کی دیکھئے لذت
کبھی ہمکتے ہیں اصغر ؑ کبھی مچلتے ہیں
جوان بیٹے کا مرنا جوان بھائی کی موت
یہ ایسے غم ہیں کہ بس جان لے کے ٹلتے ہیں
کوئی بتائے کہ پہنچیں گے کیسے اکبرؑ تک
حسین ؑ راہ میں گرتے ہیں اور سنبھلتے ہیں
جو یاد آتے ہیں اصغرؑ تو ماں تڑپتی ہے
یہ کون کہتا ہے کہ یادوں سے دل بہلتے ہیں
قسم خدا کی ہر اک زخم دکھ رہا ہوگا
حسین ؑ خاک پہ جو کروٹیں بدلتے ہیں
نہیں ہے موت سے کم بے ردائی زینبؑ
حیا کی آگ ہے اور اہل بیت جلتے ہیں
ملیں گے آج بھی قسمت سے نقش پائے حسینؑ
اسیر! آؤ چلیں ، کربلاء کو چلتے ہیں