اسلام کے ہونٹوں پہ مسلسل یہ صدا ہے

اسلام کے ہونٹوں پہ مسلسل یہ صدا ہے

شبیرؑ کی آواز ہی آواز خدا ہے

 

احمد کے نواسے نے بڑا کام کیا ہے

ہر مکتبہء فکر کو اک درس دیا ہے

 

 

جس خاک پہ خوں آل محمد کا بہا ہے

وہ خاک تو اب بھی ہے مگر خاک شفا ہے

 

 

اے خالق فطرت تو کدھر دیکھ رہا ہے

اک باپ نے بیٹے کا لہو منہ پہ ملا ہے

 

 

گرنے کی نہیں خاک پہ اب عظمت انساں

جب ہاتھ پکڑنے کے لیئے کرب وبلا ہے

 

انسان کو شاہوں کی اسیری سے چھڑانے

زنجیر میں جکڑا ہوا بیمار چلا ہے

 

 

حالات کی مجبوریاں اس باپ سے پوچھو

مرتے ہوئے بیٹے کے سرھانے جو کھڑا ہے

 

اے بھولنے والے ! مجھے دل سے نہ بھلانا

صغریٰ ؑ نے بڑے پیار سے بھائی کو لکھا ہے

 

گھبرا کے سکینہؑ نے پکارا تو نہیں ہے

تھرا کے ابھی لاشہ عباسؑ اٹھا ہے

کوفہ! تری گلیوں میں کھلے سر نہیں زینب ؑ

پردے کے لئے عصمت زہراؑ کی ردا ہے

 

ہوتا ہے عطاء صاحب دل کو غم سرورؑ

ہم کو بھی اسیر اس میں نے تھوڑا ساملا ہے

شاعری : احمد علی اسیر

: Toseef Raza Khan