بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد معجزات کیوں رک گئے جو بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے پہلے اقوام پر ظاہر کئے گئے تھے؟ کیا اس پر آیت قرآنی کی دلیل موجود ہے؟
بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد معجزات رکے نہیں بلکہ غالب معجزات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ بعثت کے بعد بھی مشاہدہ کئے گئے ، معجزہ قرآن کریم ، چاند کے دو ٹکڑے ہونا ، سورج کا پلٹانا، انگلیوں سے چشمہ کا جاری ہونا، درخت کا چلنا ، پتھروں کا تسبیح کرنا ، تناول شدہ بھیڑ کا زندہ کرنا ، قلیل طعام سے کثرت کو سیر کرنا ، بھیڑیے کا کلام کرنا ، ناقہ کا شکایت کرنا اور درخت کا آپ کے پاس جب آپ نے حکماً بلایا اور چل کر آنا اور آپ کے حکم پر واپس جانا اور آپ کا امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کو فرمانا کہ تم ناکثین و قاسطین و مارقین کے ساتھ جنگ کروگے اور جناب عمار یاسر کو فرمانا کہ تمہیں اسلام کا باغی گروہ قتل کرے گا اور مقتل حضرت امام حسین علیہ السلام کی خبر دینا اور یہ تمام صداقت پر مبنی ہیں ۔
معجزات کا عدم تخصیص بہ انبیاء
معجزات فقط انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخصوص نہیں جیسا کہ امت مسلمہ میں یقین پایا جاتا ہے مگر معتزلہ نے اس قول سے اختلاف کیا ہے اور معجزہ کو بدست انبیاء علیہم السلام سے مختص مانا ہے جسے علماء کلام نے اپنی کتب میں رد کیا ہے
بے شک ہمارے آئمہ علیہم السلام کے دست مبارک سے معجزات کی رونمائی متواتر نقل ہوئی ہے محقق طوسی حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی امامت کی دلیل میں فرماتے ہیں کہ آُپ کے دست مبارک پر معجزات جن میں باب خیبر کا اکھاڑنا ، اژدھا کا کلام کرنا ، جنات سے جنگ کرنا اور سورج کا پلٹانا وغیرہ آپ علیہ السلام کے ادعاء امامت کی صداقت پر دلیل ہیں ۔
اور شیخ صدوق رح اپنی کتاب آئمہ علیہم السلام کے بارے میں ہمارے اعتقادات میں ذکر کرتے ہیں کہ آیت تطہیر کے مصداق ہیں اور ان سے معجزات و کرامات ظاہر ہوتی ہیں اور آپ علیہم السلام سے معجزات اور دلائل ظاہر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر امان ہیں ویسے ہی جیسے ستارے آسمان پر اہل آسمان کے لئے باعث امان ہیں
شیخ مفید اہلبیت علیہم السلام کے معجزات اور کرامات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اہلبیت علیہم السلام کے نزدیک معجزات کا شمار ہونا منطقی اور ناقابل انکار ہے کیونکہ اس بارے میں قطعی اخبار دلالت کرتی ہیں اور ان دلائل کو نقل کیا گیا ہے ۔
اترك تعليق