5جمادی الثانی 1441ھ بمطابق 31 جنوری 2020ء کو نماز جمعہ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں دینی مرجعیت کا بیان سنایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم مختلف ریاستی اداروں اور محکموں کو بدعنوانی اور ناکامی کے چنگل سے نجات دلانے اور اصلاحات کا مطالبہ کرنے والی عوامی تحریک کو شروع ہوئے چار ماہ گزر چکے ہیں ، اور اس عرصے میں بے گناہوں کا بہت زیادہ خون بہا اور ہزاروں شہری زخمی ہوئے ، اور ابھی بھی بعض مقامات پر جھڑپیں جاری ہیں جس کے نتیجے میں مزید بے گناہ قربان ہو رہے ہیں۔ دینی مرجعیت کی طرف سے پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال اور ان میں سے کچھ کے قتل اور اغواء کی پرزور مذمت کی گئی ہے، اور پرامن اجتماعات اور دھرنوں کو تشدد اور طاقت سے منتشر کرنے کو قطعی طور پر نامنظور کرتی ہے اسی طرح بعض لوگوں کی طرف سے سیکیورٹی فورسز اور سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرنے، تعلیمی اداروں اور خدماتی اداروں کو دھمکانے اور وہاں توڑ پھوڑ کرنے، اور شہریوں کی سلامتی اور مفادات کو نقصان پہنچانے کو مسترد کیا گیا ہے، دینی قیادت کی طرف سے ایسے ناقابل قبول افعال سے متنبہ کیا ہے کہ اس قسم کے پرتشدد اقدامات کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی یہ کام مطالبات منوانے اور دباؤ ڈالنے کے لیے عوامی اجتماعات کا متبادل ہیں، بلکہ اس کے نتائج برعکس ہوں گے اور احتجاجی تحریک اور اس کے شرکاء کے ساتھ یکجہتی میں کمی آئے گی۔ دوسری طرف موجودہ بحران اور سیاسی، معاشی اور امنی عدم استحکام کا تسلسل ملک اور عوام کے مستقبل کے مفاد میں نہیں ہے، اس بحران سے نکلنے کی تمھید کے طور نئی حکومت کی تشکیل میں جلدی کی جائے، ضروری ہے کہ حکومت لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ ہو، حالات کو پرسکون کرنے اور ریاست کے وقار کو بحال کے قابل ہو، اور قریب ترین پہلی فرصت میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات منعقد کرنے کے لئے ضروری اقدامات کرے۔ مختلف طبقات پر مشتمل سیاسی قوتوں میں واضح طور پر پائی جانے والی تقسیم، اگلے مرحلے میں ترجیحات کے حوالے سے اختلافِ نظر، عوام کی اکثریت کی طرف سے مطالبہ کی گئی اصلاحات کرنے پر اتفاق رائے میں ناکامی نے ملک کو مزید خطرات اور پریشانیوں سے دوچار کر دیا ہے، جس کے پیش نظر موجودہ حالات میں عوام کی رائے جاننے کے لیے رائے شماری کے صندوقوں کی طرف رجوع ہی مناسب حل ہے لہذا حتمی طور پر ضروری ہے کہ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد کروانے کے لیے جلدی کی جائے تاکہ شہری حق رائے دہی استعمال کریں اور اگلی پارلیمنٹ ان کے آزادانہ فیصلے سے تشکیل پائے، اصلاحات کے لئے ضروری اقدامات کرنے اور ملک کے مستقبل کے لیے اہم رہنما فیصلے کرنے کا مطلب بھی یہی ہے خاص طور پر وہ فیصلے جن کا تعلق ملک کی خودمختاری و آزادی اور اس کے زمینی اور عوامی اتحاد کی حفاظت سے ہے۔ آخر میں اس جابرانہ منصوبے کی سختی سے مذمت کرتے ہیں جسے حال ہی میں مزید فلسطینی علاقوں پر غاصبوں کے قبضے کو جائز قرار دینے کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے، دینی قیادت اس بات پر پہ زور دیتی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہے اور ان کے اپنے مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے اور اپنی آزاد وخود مختار ریاست کے قیام کے حق میں ہے۔ دینی قیادت نے عربوں، مسلمانوں اور دنیا بھر کے تمام حریت پسندوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں فلسطینی عوام کی مدد کریں۔
اترك تعليق