21 جمادی الاول بمطابق 17 جنوری 2020ء کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی جس کے دوسرے خطبہ جمعہ میں کہا :
ہم ایک بلند مقام و منزلت والی صفت کے بارے میں بات کریں گے کہ جو سچائی ہے، سچائی نفسیاتی فضائل اور اعلی اخلاق کا مقدمہ شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ زبان و کلام کی زینت، ثابت قدمی اور فلاح وبہبود کا مبعث، معاشرتی یکجہتی کا اہم ترین اصول، تہذیب و تمدن کی ترقی کا رہنما اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام سمیت تمام سماوی شریعتوں میں اس فضیلت کو مقام اہمیت و مجد حاصل ہے اور دانا و عقلاء کی طرف سے یہ مقام عمل و اعتناء قرار پائی ہے۔ بلکہ اگر ہم سچائی کی منزلت بیان کرنے والی احادیث میں غور کریں تو ہمیں یہ فضیلت ایسا معیار و میزان نظر آئے گی جس سے ایک مسلمان انسان کی سوچ اور اس کی حقیقی اسلام کے جوہر سے واقفیت کو پرکھا جاتا ہے، اسی طرح سے سچائی ہی ایمان کا معیار و میزان ہے اسی سے ہی پتا چلتا ہے کہ اسلام اور ایمان کا دعوی کرنے والے اس انسان کا ایمان صرف زبان کا چسکا اور ظاہری ریاکاری ہے یا پھر یہ انسان اپنے باطن میں اسلام اور اس کی تعلیمات پر ایمان رکھتا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں
" ان کی نمازوں اور روزوں سے دھوکہ نہ کھاؤ، بعض دفعہ انسان نماز روزے کا شوقین ہوتا ہے کہ اسے ترک کرنے پر اسے وحشت ہونے لگتی ہے لہذا آپ ان کا سچی بات کرنے اور امانت کی ادائیگی کے ذریعے امتحان لو"۔ اگر ہم اپنے ایمان کے سچے ہونے اور اسلام و ایمان کی حقیقت کے بارے میں اپنی سجھ کو جاننا چاہتے ہیں؟ تو ہمیں ان دو صفات یعنی سچی بات اور امانتداری کے ذریعے خود کو پرکھنا ہو گا۔ سچائی سے مراد گفتگو اور حقیقت کے درمیان مطابقت کا ہونا ہے کہ جس میں سوچ، نیت، قصد، عمل اور اخلاق وغیرہ بھی شامل ہیں کیونکہ بعض دفعہ انسان زبان کا تو سچا ہے لیکن عمل، یا اخلاق، یا نظریاتی دعوت، یا نیت، یا عزم وغیرہ میں سچا نہیں ہے۔ لہذا قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں سچائی ایک وسیع معنی و مفہوم پر مشتمل ہے ۔ سچائی کے بہت سے معاشرتی، فکری، ثقافتی اور عبادتی آثار ہیں جو اس کی اہمیت اور فضیلت کو روشن کرتے ہیں ہم ان میں سے چند کا یہاں ذکر کرتے ہیں: سچائی معاشرے کے افراد کے درمیان اعتماد کو قائم کرتی ہے، ہر طرح کے انسانی و مادی رشتوں کو مضبوط بناتی ہے جس سے معاشرے میں امن و امان، سکون، یکجہتی، تعاون اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور قبول کرنے کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں سچائی نہیں ہو گی تو معاشرہ چاہے دیندار ہے یا نہیں دونوں صورتوں میں اقتصادی اور سماجی معاملات میں کامیابی نہیں ملے گی اور خبروں، معلومات اور حقائق پر یقین نہیں رہے گا جس سے پورا نظام درھم برھم ہو جائے گا۔ سچا انسان سب سے محبت، احترام اور قدر دانی سمیٹتا ہے لوگ اس کے قرب کے خواہش مند ہوتے ہیں اور وہ بھی اس ماحول میں اپنی زندگی کا اچھا برا وقت خوشگوار انداز میں گزار سکتا ہے۔ اگر معاشرے کے افراد سچے ہوں تو اس سے زندگی کے تمام شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون اور بھلائی کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اور اس میں سماجی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ ہمیں اس وقت اپنے آپ، اپنے معاشرے اور وطن کو ان مشکلات سے نکالنے کے لیے ایک سچے حاکم اور سچے ذمہ دار کی ضرورت ہے کہ سچائی کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور اپنے وعدوں میں بھی سچا ہو۔ ہمیں ان مشکلات سے نکلنے کے لیے سچے میڈیا کی ضرورت ہے جو ہم تک سچی خبریں پہنچائے، ہمیں سچے سیاسی، سماجی اور تاریخی تجزیہ کار کی ضرورت ہے، ہمیں سچے کاتب اور مؤرخ کی ضرورت ہے کہ جو اقوام اور تاریخ کے واقعات کو سچائی سے ہم تک پہنچائے، تاکہ ہم تاریخ، اقوام اور اصلاحی قائدین کے تجربات سے استفادہ کر سکیں، ہمیں اقوام کے عقائد، نظریات، افکار اور ثقافت کو سچائی سے بیان کرنے والے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ کسی ہیر پھیر کے بغیر ہو اور لوگوں کو گمراہ نہ کرے، اسی طرح ہمیں سچے ڈاکٹر، سچے انجینیئر، سچے ملازم، سچے استاد، سچے کسان، سچے مزدور، سچے شہری کی ضرورت ہے، ہمیں اپنے ہر شعبۂ زندگی میں سچائی سے کام لینے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہو گیا تبھی ترقی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو جائے یعنی جھوٹ کہ جو خطرناک ترین سماجی آفت، بدترین نفسیاتی اور اخلاقی برائی اور اکثر گناہوں اور شرور کی جڑ ہے ہر پھیل جائے۔ کیا کبھی غور کیا ہے کہ اخلاقی عیوب اور بری صفات میں سے کون سی صفت اس وقت زیادہ پھیلی ہوئی ہے؟ ایک تحقیقی سروے سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ پھیلی ہوئی برائی غیبت ہے اور دوسرے نمبر پر جس برائی نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ جھوٹ ہے۔ حضرت امام عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: تمام برائیاں ایک گھر میں ہیں اور اس گھر کی چابی جھوٹ ہے۔ بات میں، خبر میں، تاریخ واقعہ میں، کسی قوم کے حالات میں، کام کے بارے میں، فکر وثقافت کے بارے میں، عادات و عقائد سمیت کسی بھی چیز کے بارے میں جھوٹ بہت سی مشکلات اور برائیوں کا سبب بنتا ہے، ناجانے کتنے ہی قتل اور فساد جھوٹ کی وجہ سے ہوئے ناجانے کتنے رشتے اور تعلق جھوٹ کی وجہ سے ختم ہوئے، باجانے کتنی معاشرتی مشکلات کو جھوٹ نے جنم دیا. رسول اکرم صلّى الله عليه وآله فرماتے ہیں جِس میں یہ تین خَصلتیں ہوں وہ خالص مُنافق ہے، اور جِس میں اِن میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اُس میں نِفاق کی خَصلت ہے یہاں تک کہ وہ اُسے چھوڑ دے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ خِلافی کرے، جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے یعنی بے حیائی پر اتر آئے۔ کچھ ایسے جھوٹ ہیں جنھیں لوگ بہت معمولی سمجھتے ہیں جیسے ہنسی مذاق کے طور پر جھوٹ بولنا یا کسی جھوٹ کو چھوٹا جھوٹ کہنا وغیرہ امام سجاد علیہ السلام نے کسی بھی جھوٹ معمولی اور چھوٹا سمجھنے سے گریز کا حکم دیا ہے امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر جھوٹے بڑے جھوٹ سے اجتناب کرو جب کوئی شخص کسی چھوٹے معاملے میں جھوٹ بولتا ہے تو یہ اسے کسی بڑے معاملے میں جھوٹ کی جرأت دیتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہر حوالے سے اس شرانگیز گناہ اور برائی سے پرہیز کریں، خدا ہمیں سچا بننے اور جھوٹ سے احتناب کی توفیق دے،
اترك تعليق