داعش سے آزادی کی سالگرہ اور امن و امان بحال کرنے والے اداروں کی بحالی

16 ربیع الثانی 1441ھ بمطابق 13 دسمبر 2019ء کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مطہر حضرت عباس علیہ السلام کے متولی علامہ سید احمد صافی کی امامت میں ادا کی گئی جس میں مرجعیت اعلیٰ کی طرف سے بیان سنایا گیا ۔ بسم الله الرحمن الرحيم چند دن پہلے ہی داعش کے خلاف فتح کی دوسری سالگرہ تھی اور ملت عراق نے یہ فتح دہشت گرد تنظیم کے زیر قبضہ اپنے وطن کے قیمتی اجزاء کو آزاد کروانے کے لئے ایک بڑی تاریخی جنگ میں حاصل کی، اور اس آزمائش میں بخوبی کامیاب ہوئے۔ اہل عراق نے تین سال سے زیادہ عرصہ اس طویل جنگ میں ہزاروں شہداء پیش کئے اور اس سے کئی گنا زیادہ افراد زخمی ہوئے اور انہوں نے وقار اور حریت کے الفاظ سے عراق کی تاریخ میں روشن صفحات کا اضافہ کیا، اپنی سرزمین، ناموس اور مقدسات کے دفاع میں بہادری اور فداکاری کی انتہائی خوبصورت تصاویر کو تخلیق کیا۔ اس موقع پر میں تمام عراقیوں کے دلوں میں ان شہدائے ابرار کی یاد نہایت عزت و احترام اور اجلال و اکبار سے تازہ کرنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے وطن کی سرزمین کو اپنے پاکیزہ خون سے سیراب کیا اور لافانیت کے اعلی درجات کو حاصل کیا۔ ہم انتہائی عزت و احترام اور قدردانی کے ساتھ ان کے اہل خانہ اور پسماندگان، جنگ میں زخمی اور معذور ہونے والوں، اور ابھی تک دہشت گردوں کی باقیات کو پورے ملک میں ختم کرنے میں مصروف اپنے جانبازوں کی خدمت میں نذرانہ تشکر اور دعائیں پیش کرتے ہیں۔ لہذا آج پھر پہلے کی طرح اس بات پر زور دوں گا ٹھوس پیشہ ورانہ بنیادوں پر فوج اور تمام عراقی مسلح قوات کی اشد ضرورت ہے اس طرح سے کہ ان کی مکمل وفاداری وطن سے ہو اور وہ ہر بیرونی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے تیار رہے اور اس کے سیاسی نظام کی آئینی اور قانونی ڈھانچے کے مطابق عوام کی مرضی سے حفاظت کرے۔ اسی طرح میں پھر سے اس بات پر زور دیتے ہیں آزاد ہونے والے علاقوں میں اقتصادی حالات بہتر بنائے جائيں، تعمیر نو کی جائے اور مہاجرین کو عزت واحترم کے ساتھ واپس اپنے علاقوں میں  جانے کے قابل بنایاجائے۔ عزیز اہل عراق آج آپ کے سامنے جاری معرکہ کی حدّت و شدت دہشت گردوں کے خلاف لڑے گئے معرکہ سے کم نہیں ہے اور یہ معرکہ اصلاحات اور ملکی نظام سے بدعنوانی اور ناکامی کے ایک طویل دور کو ختم کرنے کا معرکہ ہے، جن باشرف عراقیوں نے دہشت گردی کے خلاف معرکہ نہایت بہادری کا مظاہرہ کیا ہے وہ خدا تعالٰی کی مدد سے اس معرکہ میں جنگ لڑنے اور اس میں کامیابی حاصل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں بشرطیکہ وہ اپنے ارادہ کو مضبوط کریں اور پرامن طریقوں کو اختیار کریں کیونکہ اس معرکہ میں فتح حاصل کرنے کے لئے پر امن طریقوں کا استعمال بنیادی شرط ہے۔ خوش آئند اور حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ جاری مظاہروں اور دھرنوں میں شامل بیشتر شرکاء کو پرامن احتجاج کی اہمیت اور مظاہروں کے تشدد، انتشار اور شہریوں کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے امور سے خالی ہونے کی اہمیت کا احساس ہے۔ باوجود اس کے کہ جو بھی قیمتی خون بہہ رہا ہے وہ ظلم اور عدوان ہے، اس ہفتہ کے شروع میں بغداد کے "سنک" کے علاقے میں عزیز مظاہرین پر وحشیانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں دسیوں افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ یہ دردناک واقعہ اور قتل و اغوا کے واقعات جو پچھلے دنوں میں دہرائے گئے، ان جیسے واقعات کے سبب پہلے بھی بارہا تاکید کرنے کے بعد ایک بار پھر اس بات کی ضرورت پر زور دیا جاتاہےکہ ہر قسم کا اسلحہ لازمی طور پر صرف ریاست کی دسترس میں ہونا چاہیے، اور کسی بھی نام یا موضوع کے تحت کسی بھی مسلح گروہ کے وجود کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس ملک کا استحکام اور عوام کے لیے امن و امان اسی میں منحصر ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس اصلاحی تحریک کے نتیجے میں یہ ہو کر رہے گا۔ قتل، اغوا اور ہر قسم کے حملوں کے واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہیں، جن میں سے ایک وثبہ کے علاقے میں گزشتہ روز پیش آنے والا وحشیانہ، خوفناک اور بھیانک جرم بھی ہے ہم متعلقہ حکام سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے اوران جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو پکڑنے اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔  اس قسم کے واقعات کے تکرار کے ملکی امن و استحکام اور احتجاج پر براہ راست پڑنے والے منفی اثرات سے خبردار رہیں۔ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ایک منصفانہ عدلیہ ہی تمام جرائم اور خلاف ورزیوں کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے، قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے لوگوں کے لئے کسی کو بھی سزا دینا جائز نہیں ہے چاہے وہ اس کا مستحق ہی کیوں نہ ہو۔ اور کسی کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹنا، اس کا مثلہ کرنا اور لٹکانا خود ایک جرم ہے اس کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لینا واجب ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کل لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان وحشیانہ واقعہ کو دیکھ رہی تھی ۔

منسلکات