آپ کا تعارف علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر ہے ۔
آپ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب سے اول ہاشمی کی والدہ کہلائیں اور آپ کے والد اور والدہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی پرورش کرنے والے تھے جب کمسنی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ آپ کو داغ مفارقت دے گئے ۔
رکن یمانی سے قبل رکن "المستجار"سے خانہ کعبہ کی دیوار شق ہوئی جب حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا داخل ہوئیں اور خانہ کعبہ کے اندر آمد امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہوئی ۔
آپ علیہ السلام نے 22 سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی امانتیں سپرد کرنے کے بعد "فواطم"کے ساتھ ہجرت کی فواطم فاطمہ کی جمع ہے آپ کے ساتھ ہجرت میں جناب فاطمہ بن اسد ، فاطمہ بنت محمد اور فاطمہ بنت حمزہ اور بعض روایات میں فاطمہ بنت زبیر کا ذکر آیا ہے آپ اس ہجرت کے سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کو مسجد قباء میں جاملے جہاں آنحضرت آپ کے منتظر تھے وہاں سے سے آنحضرت آپ کو اپنی ہمرکابی میں لیکر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور مواخات مہاجرین و انصار کا قیام فرمایااور اپنے اور علی اب ابیطالب علیہ السلام کے درمیان برادرانہ رشتہ قرار فرمایا۔
آپ علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ تمام غزوات میں شمولیت فرمائی ماسوائے غزوہ تبوک جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کو مدینہ میں اہل مدینہ کی حفاظت کے لئے چھوڑ آئے تھے اور فرمایا
"اے علی!آپ میرے ساتھ ویسی نسبت رکھتے ہیں جیسی ہارون اور موسیٰ علیہم السلام کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا"
آپ علیہ السلام نے تمام غزوات میں بہادری کے جوہر دکھائے غزوہ بدر میں ولید بن عتبہ کو قتل کیا اور ساتھ ہی 20 مشرکین مکہ کو واصل جہنم کیا غزوہ احد میں طلحہ بن عبد العزیٰ کو واصل جہنم کیا جوکہ قریش کا علمبردار تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے آپکو فدک کی طرف روانہ فرمایا آپ کامیاب لوٹے غزوہ خندق میں عمر بن عبد ود العامری کوواصل جہنم کیا اور غزوہ خیبر میں یہودیوں کے جنگجو مرحب کو زیر کیا اور شدت قتال میں خیبر کے دروازے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور ایک ڈھال کی صورت میں استعمال کیا آپ کے پاس مشہور تلوار تھی جو آپکو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے غزوہ احد میں عطاء فرمائی تھی اور آپ کو ایک ڈھال بھی عطاء فرمائی جسکا نام "حطمیہ" تھا اور اس کی نامگزاری کا سبب کثرت سے تلواروں کی اس ڈھال پر ٹوٹ جانا تھا
18 ذوالحجہ 10ھ کو حج سے واپسی پر مسلمانوں نے بزبان نبی حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی بیعت کی اور اسی دن آیت قرآنی کا نزول ہوا کہ
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِيناً﴾
19 رمضان المبارک 41ھ کی صبح خوارج سے تعلق رکھنے والا عبدالرحمن ابن ملجم ملعون نے آپ کے سر اقدس پر زہر آلود تلوار سے ضرب لگائی اور آپ علیہ السلام اس ضرب سے جانبر نہ ہوسکے اور 21 رمضان المبارک کو شہادت پاگئے
اترك تعليق