25 جمادی الاول 1440ھ بمطابق 1 فروری 2019ء کو نماز جمعہ صحن حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبدالمہدی کربلائی کی امامت میں ادا کی گئی جس میں بغیر تحقیقی بنیاد کے خبروں کی نشر و اشاعت اور ان کے نقصانات پر روشنی ڈالی ۔
معاشرے میں موجود وہ عادات جو اخلاقی نیٹ ورک اور اجتماعی امن و آشتی کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ ہمارا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ ہم معارف الہی، شرعی احکام اور اسلامی طور طریقوں کو بیان کریں اور جب محسوس ہو کہ بعض عادات معاشرتی ڈھانچے، اجتماعی روابط اور اخلاقی نیٹ ورک کے لیے چیلنج بن رہی ہیں تو معاشرے کو بچانے اور اسے محفوظ بنانے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ معاشرے میں موجود جو عادات چیلنج بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک بہتان بازی، جھوٹی خبریں اور ان کی بغیر تحقیق نشرواشاعت ہے اور بغیر کسی علم کے گفتگو کرنا جھوٹ، جعل سازی، افتراء اور بہتان ہے علوم کی تعریف و تشریح کرنے اور سائنسی، تربیتی اور ثقافتی طور طریقوں کے بیان کرنے کے لیے انسان کے پاس بنیادی آلہ اس کی زبان ہے۔ دوسری بات یہ ہے علمی، سائنسی، تربیتی اور ثقافتی طور طریقوں کو انسانوں کے درمیان نشر و نقل کیا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ انسانوں کے ماضی و حال کے تاریخی حقائق، عظیم انسانوں اور صالحین کے حالات زندگی، سابقہ اقوام اور امتوں کے حالات و واقعات کو بھی نقل کیا جاتا ہے اور انھیں صحیح سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب چیزيں افہام و تفہیم، تخاطب، تبادلہ خیال اور بحث مباحثے کا ذریعہ بھی ہیں اور ان امور کی ہمیں اشد ضرورت بھی ہے انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر ان امور کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا.... اور ان تمام کاموں کا بنیادی وسیلہ زبان یا تحریر وغیرہ کی مثل اس کی جگہ استعمال ہونے والے امور ہیں۔ جھوٹ، جعلی خبریں، جعل سازی اور بہتان بازی کے اثرات کو جاننے کے لیے تمہیدی طور پر دو باتیں ہیں: پہلی بات یہ ہے کہ زبان کی اہمیت پہ غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ زبان کبھی تو اچھائی کے لیے استعمال ہوتی ہے اور کبھی برائی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ زبان کا قائم مقام قلم ہے اسے دوسری زبان بھی کہا جاتا ہے اور بعض اوقات قلم زبان سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس زمانے میں۔ دوسری بات یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر زبان اور اس کے قائم مقام کی ضرورت بھی ہے تاکہ زندگی کے فرائض کی ادائیگی کر سکیں۔ امن و سکون، خوشحالی اور فکری و ثقافتی اور اجتماعی امن ان اہداف میں سے ہے جن تک پہنچنا مطلوب و ضروری ہے۔ معاشرے میں امن و سکون ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال، افہام تفہیم اور تعاون سے ہی ممکن ہے۔ کسی بھی معاشرے کے لیے اپنے فرائض کی ادائیگی اور اہداف تک وصول ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے، افہام و تفہیم، تعاون اور تبادلہ خیال کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب معاشرے کے افراد ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوں اور انھیں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ ہو۔ ایک دوسرے پر اعتماد اور معاشرے میں امن و خوشحالی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر زبان یا قلم و تحریر کا لہجہ سچا ہو اور وہ حقائق، جذبات اور احساسات کو دوسروں تک پہنچانے میں امانتداری سے کام لے تو وہ معاشرے کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے نجات دہندہ کا کردار ادا کرتا ہے اور معاشرہ امن و سکون، خوشحالی اور فرائض کی ادائیگی کی راہ پہ گامزن ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر زبان اور قلم دھوکہ، گمراہی، جھوٹ اور جعل سازی کا آلہ ہوں، علمی و تاریخی حقائق، لوگوں اور گزشتہ اقوام کے حالات زندگی، مواقف و ارادوں اور احساسات کو دوسروں تک پہنچانے کے سلسلہ میں جھوٹ سے کام لیں تو وہ برائی و شر کا لیڈر ثابت ہوتے ہیں اور انفرادی و اجتماعی ہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔ حدیث میں مذکور ہے:
لوگوں ناک کی نتھنی سے پکڑ کر کھیچتے ہوئے آگ میں ڈالا جائے گا اور یہ صرف اور صرف ان کی زبان کے نتیجہ میں ہو گا۔ اس وقت معاشرے میں جو بری عادت تیزی سے پھیلتی دکھائی دے رہی ہے وہ فیک نیوز، جعل سازی، دھوکہ، بغیر کچھ جانے گفتگو اور ان سب امور کی نشر و اشاعت ہے اور بچوں، بڑوں، عورتوں اور مردوں سمیت معاشرے کے ہر فرد کے پاس سوشل اور ديگر اقسام کے میڈیا کی موجودگی نے اس کے خطرات اور نقصانات کو مزید بڑھا دیا ہے اور اب یہ امور پورے معاشرے کے لیے خطرناک چیلنج بن گئے ہیں لہذا ان سے محتاط رہنا بے حد ضروری ہے۔ معاشرے میں پھیلتی ہوئی ان بری عادات کا سبب دوسروں سے حسد، بغض، حقد، دشمنی، مال و جاہ کی لالچ، ارباب اختیار کے قرب کا شوق، دنیاوی امور کی خاطر اثر و رسوخ کی خواہش، پارٹی وفاداری، دینی و گروہی تعصب اور سوءِ ظن اور دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلدی ہے۔ ارشاد قدرت ہے: جب تم اس جھوٹی خبر کو اپنی زبانوں پر لیتے جا رہے تھے اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہ رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا اور تم اسے ایک معمولی بات خیال کر رہے تھے جب کہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی بات ہے۔ ایک دوسری جگہ اللہ فرماتا ہے: اور جو لوگ مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو ناکردہ (گناہ ) پر اذیت دیتے ہیں پس انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے۔ حدیث میں مذکور ہے جب کوئی مومن بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ تھوڑی دیر کے لیے رکتا ہے بات کو اپنے دل میں دھراتا ہے اگر اسے اس بات میں نیکی اور بھلائی نظر آئے تو وہ اس بات کو کر دیتا ہے اور اگر اسے اس میں حرام اور برائی دکھائی دے تو وہ بات کرنے سے رک جاتا ہے۔
اترك تعليق