اجتماعی امن اور اخلاقی نظام کے لیے چیلنج بنے والے سماجی رجحانات

29 ربیع الاول 1440ھ بمطابق 7دسمبر 2018ء کو نماز جمعہ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مقدس حسینی کے متولی علامہ شیخ عبد المہدی کربلائ کی امامت میں ادا کی گئی جس میں اجتماعی امن اور اخلاقی نظام کے لیے چیلنج بنے والے سماجی رجحانات کو اپنا موضوع قرار دیا۔

روز مرہ کی زندگی میں بہت سے امور انسان کو انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر اکٹھا کرتے ہیں اور بہت سے امور میں اختلاف بھی ہو جاتا ہے انسان اختلافی امور میں بعض دفعہ قابل تعریف رویے کا مظاہرہ کرتا ہے اور بعض دفعہ اختلافی امور میں قابل مذمت رویہ کو اپناتا ہے اور ان قابل مذمت رویوں میں سے ایک شدت پسندی اور قدامت پسندی ہے۔ اگر شدت پسندی اور قدامت پسندی پورے معاشرے کو گھیر لے تو یہ رویہ پورے معاشرے کے امن و استقرار کے لیے خطرہ اور چیلنج بن جاتا ہے۔ شدت پسندی اور قدامت پسندی کی بہت سی شکلیں اور اقسام ہیں جن میں عدوانی رویہ، دوسروں پر تجاوز، سختی سے پیش آنا، ظلم کرنا، سنگ دلی، غصہ، انتقامی رویہ وغیرہ سرفہرست ہیں اور یہ سب معاشرے میں جنگی صورت حال پیدا کرنے کے کافی ہیں۔ البتہ بعض موقعوں پر انسانی غیض و غضب کو مثبت اور قابل تعریف بھی کہا جاتا ہے جب یہ غیض و غضب شریعت کے دائرہ میں ہو کسی انسان سے زیادتی کا باعث نہ بنے جب اسے اپنے وطن، اپنی جان و مال اور ناموس کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جائے۔ لیکن اکثر و بیشتر غیض و غضب اور شدت پسندی قابل مذمت ہی ہوتی ہے اور انسان کا نرمی سے پیش آنا، دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا اور امن آشتی سے رہنا ہی قابل تعریف ہوتا ہے۔ آیات اور احادیث میں غیض و غضب اور شدت پسندی کی مذمت کی گئی ہے اور اعتدال پسندی، نرمی اور احترام پر مشتمل رویہ کی تعریف کی گئی ہے۔ ہمارے نبي صلّى الله عليه وآله فرماتے ہیں جس شخص کو نرمی سے اس کا حصہ دیا گیا تو اسے دنیا و آخرت کی بھلائی سے اس کا حصہ دیا گیا اور جو شخص نرمی سے اپنے حصے سے محروم کر دیا گیا تو وہ دنیا و آخرت میں اپنے حصے کی بھلائی سے محروم کر دیا گیا۔ رسول الله صلّى الله عليه وآله نے فرمایا لوگوں سے اچھے تعلقات نصف ایمان ہیں، اور ان سے رواداری نصف زندگی ہے۔ اسی طرح سے آئمہ  علیہ السلام  کی سیرت میں بھی صرف نرمی اور اعتدال کا عنصر نظر آتا ہے اور وہ اس کی مجسم تصویر تھے۔ مثال کے طور پر امام موسی کاظم  علیہ السلام  میں تحمل وبرداشت اورغصہ ضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کا لقب کاظم قراردیاگیا جس کے معنی ہیں غصہ کوپینے والا، آپ کوکبھی کسی نے ترش روئی اورسختی کے ساتھ بات چیت کرتے نہیں دیکھا اورانتہائی ناگوارحالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظر آئے مدینہ کے ایک شخص سے آپ کوسخت تکلیفیں پہنچیں یہاں تک کہ وہ کے سامنے جناب امیر المومنین علیہ السلام کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا، مگرحضرت نے اپنے اصحاب کوہمیشہ اس کے جواب دینے سے روکا۔ جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایت کی اورکہا کہ اب ہمیں ضبط کی تاب نہیں ہمیں ان سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے، تو حضرت نے فرمایا میں خود اس کا تدارک کروں گا اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس اس کی زراعت پرتشریف لے گئے اورکچھ ایسا احسان اورحسن سلوک فرمایا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ہوا، اوراپنے طرز عمل کو بدل دیا اور امام علیہ السلام کا محب بن گیا اور اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان کرنے لگا۔ حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرما کر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاہتے تھے سب نے کہا یقینا حضور نے جو طریقہ اختیار فرمایا وہی بہتر تھا۔ آئمہ ہمیں اپنی تعلیمات اور عملی سیرت کے ذریعے شدت پسندی اور سختی سے دوری، امن وآشتی سے رہنے اور دوسروں کے احترام کا حکم دیتے ہیں اوراسی سے ہی معاشرے میں امن و استقرار آتا ہے۔ شدت پسندی کی اقسام میں سے اجتماعی شدت پسندی، سیاسی شدت پسندی، عائلی شدت پسندی، گفتگو میں سختی اور قبائلی قدامت پسندی سرفہرست ہے۔ اعلی دینی قیادت نے بعض قبائل سے اپنی اُن تمام سرگرمیوں اور عادات کو مکمل طور پر چھوڑنے کا مطالبہ کیا ہے جو شریعت، اخلاقیات اور قومی مفادات کے خلاف ہیں کہ جو اس آخری عرصے کے دوران پھیلی ہیں۔ یہ عادات اور سرگرمیاں بے گناہ لوگوں پر ظلم و بربریت اور خدائی قوانین وحدود سے تجاوز ہیں۔ خدا را خدا را شہریوں کی عزت وحرمت کا خیال رکھیں اور ان کے احترام اور حقوق پر تجاوز و جسارت نہ کریں۔  

منسلکات