قرآن کریم بھی ایسے حالات کی سختی سے نفی و مذمت کرتا ہے جو تشدد کی طرف لے جائیں اور دین مستقیم پر سختی سے عملدرآمد کی ہدایت کرتا ہے ۔
جیسا کے ہم سے پہلے امتوں کے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ"اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ تعالیٰ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو "
اور دیگر آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
"اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو پاکیزہ چیزیں تمہارے واسطے حلال کی ہیں ان کو حرام مت کرو اور حد سے آگے مت نکلو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے آگے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا"
لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہ یہ امت اس فتنے میں مبتلا ہوگئی اور اپنے دین کو ایک رسم و رواج کی شکل دے کر تشدد کی صورت اختیار کر لی ہے اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں موجود کئی محرمات کو اختیار کرلیا ہے اور جزء زندگی بنا لیا ہے ۔
پس یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ تشدد کی روک تھام اور دین پر سختی سے عمل کی تاکید کیوں ہے ؟
ان تمام اسباب کے پس پشت مندرجہ ذیل عوامل کارفرما ہیں
1۔ انسانی اقدار کی عدم موجودگی اور دیگر اہم انسانی اساس جن میں عدل کو نظام رائج ہونا ہے جو کہ اسلام کا اساس ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے
"یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں"
جبکہ زمین پر تعمیرات اور استثمار کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
"وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور یہاں تم کو بسایا"
اور اس کائنات کے اسرار کی معرفت اور دریافت کے بارے میں فرمایا
"آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمان اور زمین میں ہیں"
اور حقوق انسان کی حفاظت کے بارے میں فرمایا
"لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو"
اسی طرح جب یہ اساسی ضروریات معاشرے سے اٹھ جائیں یا ان کا وجود کمزور ہوجائے تو ان کی جگہ موجودہ غیر ضروری اور ممنوعات لے لیتی ہیں جنہیں یہاں تک کہ شرعیت اسلامیہ میں حرام قرار دیا گیا ہو۔
2۔ بعض اوقات ایک طبقہ مخصوص دینی حالات پر پرورش پاتا ہے اور اسی طرح اس کی نشر و اشاعت میں مشغول رہتا ہے مگر حقیقت میں دین فہمی میں خطاء پر ہوتا ہے یا پھر بعض اپنے دینی مقاصد کو ہی فروغ دیتا ہے جن پر تما م متفق ہوتے ہیں اور تائید کرتے ہیں
پس ایسا طبقہ قرآن مجید کی آیت میں کچھ اس طرح بیان ہوا ہے
"اکثر علماء اور عابد لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روک دیتے ہیں"
جب کہ یہی طبقہ اپنے بعض دنیوی مقاصد کی برآوری کے لئے دینی مقاصد کا استعمال کرتے ہیں تو قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
"پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جو شرع کا نوشتہ اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر لوگون سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدی حاصل کرسکیں ان کے ہاتھوں کا لکھا بھی ان کے لئے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لئے موجب ہلاکت۔
3۔ معاشرتی نشوونما بھی دینی حالات پر اثر انداز ہوتی کہ جس معاشرے و صحبت میں انسان پرورش پاتا ہے اسی پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اگر جائے پرورش مذکورہ اخلاقی اقدار سے خالی ہو تو حرص و مقابلہ بازی جگہ لے لیتی ہے جو بعض اوقات غلو و تقصیر کا باعث بنتی ہے کیونکہ جائے پرورش سے تربیت ہی میں تنازع اور مقابلہ بازی اور اپنےہی عقائد کے دفاع کا لقمہ میسر ہوا ہے .
مگر اس کے مد مقابل دیگر اطراف تشدد کی بجائے مل بیٹھ کر بات کرنے اور مساوات کی بات کرتے ہیں۔
اترك تعليق