کون ہے جو اس بدحالی کے ذمہ لے اور ارتقاء کے لئے قدم اٹھائے

21 شوال 1439ھ کو نماز جمعہ حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مطہر حضرت عباس علیہ السلام کے متولی علامہ سید احمد صافی کی امامت میں ادا کی گئی جس کے دوسرے خطبہ جمعے میں انسانی ارتقاء اور غفلت اور بےضابطگیوں کو موضوع بناتے ہوئے کہا:

 انسان زیادہ تر جن منصوبوں پہ کام کرتا ہے نفع بخش ہوتے ہیں اور نفع بخش منصوبہ جات کہ جن کا فائدہ معاشرے کے زیادہ سے زیادہ طبقات تک پہنچے اہل عقل ہمیشہ ایسے منصوبوں کے نفاذ کے لئے مسابقت اختیار کرتے ہیں کیونکہ منصوبوں کے ثمرات مختلف ہوتے ہیں جن میں سے بعض کے ثمرات مالی فوائد ہیں اور جبکہ بعض سہولیاتی منصوبے ہیں اسی طرح ہر منصوبہ اپنے ہدف کے لحاظ سے بھی مختلف ہوتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والے نتائج بھی منصوبے کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔

 میں اس بات کو دہراتا چلوں کہ یہ میری گفتگو سیاسی گفتگو نہیں ہے بلکہ یہ وہ باتیں ہیں کہ جن کا ہم روز مرہ زندگی میں سامنا کرتے ہیں۔ تمام منصوبے اپنے فوائد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ سب سے بہتر منصوبہ وہ ہوتا ہے کہ جس میں انسان سازی کی جائے جس میں انسان کی تربیت کی جائے جو منصوبہ انسان کو تعلیم دے کیونکہ اس قسم کے منصوبے زمانے اور جانب کے حوالے سے محدود نہیں ہوتے اور اس کے اثرات اس وقت تک باقی رہتے ہیں کہ جب تک انسان کی ترقی اور قابلیت کے بارے میں گفتگو باقی رہے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں اس قسم کے کسی بھی منصوبے کی افضلیت ہر طرح کے منصوبوں سے بڑھ کر ہے ۔

 قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ "ہم نے بنی آدم کو مکرم و محترم قرار دیا ہے" انبیاء علیھم السلام، مصلحین، مفکرین، فلاسفہ اور صاحبان اخلاق کی تمام تحریکیں اسی بات کی نشاندہی کرتی ہیں انبیاء علیھم السلام کا ارتباط اللہ سے ہوتا ہے دیگران نے بھی اپنی تعلیمات سے انسانی قابلیت کی ترقی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کی بات کرتے ہیں – بغیر موضوع سیاسی-ہمارےہاں انسان کے ارتقاء کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

بعض حالات میں افراتفری ہے تاکہ سیاہ چہرہ کی نشان دہی نہ کریں کہ بعض حالات میں ایک افرا تفری دکھائی دیتی ہے اس افرا تفری کو ختم کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ بلکہ اس افرا تفری کی ابتداء کا کون ذمہ دارہے؟

 کیا اس کی ذمہ دار حکومت ہے؟ کیا یہ مسئولیت دوسرے اداروں کی ہے؟ کیا گھر اور خاندان اس کا ذمہ دار ہے؟ کیوں انسان کے ارتقاء کے لئے کام نہیں کیا جارہا؟

بے شک اس سلسلہ میں بہت سی مثالیں ذکر کی جاسکتی ہیں ہم اس وطن کے رہنے والے ہیں ہمارا حق ہے کہ ہم ان تمام وسائل کے بارے میں گفتگو کریں کہ جس سے شہری یا انسان ترقی کر سکتا ہے۔ خطباء اپنی مجالس میں اس قسم کی گفتگو کرتے رہتے ہیں کہ ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے پرہیز کرو، جھوٹ نہ بولو ، فلاں کام نہ کرو.....لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وعظ و نصیحت کے لیے ایک دو بلکہ دسیوں خطباء اور خطابات ناکافی ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ جس میں انسان ترقی اور بلندی کی طرف جاتا جائے اور اس کی صلاحیتیں بڑھتی چلی جائیں لیکن اس کام کی ذمہ داری کس کی ہے؟ میری گفتگو روز مرہ کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بارے میں ہے لیکن جب ہم انہیں دیکھتے ہیں تو ہمیں تکلیف پہنچتی ہے ۔

مثلا سڑکوں اور گلیوں میں پڑا کوڑا کرکٹ کس کی وجہ سے ہے؟ یہ صورت حال کیوں ہے؟ یہ ایسی صورت حال ہے کہ جو مسلسل دیکھی جا رہی ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی اسی وقت ہم اس کا خاتمہ کریں کیونکہ ایک لحظہ میں ہم ختم نہیں کرسکتے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس کے اسباب کی طرف بڑھوں تا کہ اس صورت حال کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ ہم مثال کے طور پر ٹریفک پولیس کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں کہیں گے کہ تم قانون کو نافذ کرو کیونکہ ہمیں قانون کا نفاذ پسند ہے لیکن خود ہمارے اندر قانون کی پابندی موجود نہیں ہےکیونکہ جب پولیس والا کسی شخص پر قانون نافذ کرنے لگتا ہے تو وہ اسے دھمکی دے کے کہتا ہے کہ میں ابھی اپنے قبیلہ والوں سے بات کرتا ہوں کیا یہ ایک عقلمندانہ فعل ہے؟بے شک قبائل ایک محترم معاشرتی افراد پر مشتمل ہیں لیکن اب سوال یہ ہے کہ قبیلے کا ٹریفک پولیس کی طرف سے قانون کے نفاذ میں کیا عمل دخل ہے اس دھمکی کے بعد پولیس والا خوف زدہ ہو جاتا ہے اور قانون دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے۔کیوں؟بے شک اس وطن عزیزکی حفاظت میں ان قبائل کا کلیدی کردار رہا ہے اسی پس منظر کی بناء پر قانون قانون اور نافذ کرنے والوں کو دھمکایا جاتا ہے ۔ اگر دو افراد کے درمیان نہر کے پانی کے کھیتوں تک پہنچانے کے حوالے سے اختلاف ہو جاتا ہے تو عقل مندانہ طریقہ یہ ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں اور آپس میں طے کر لیں کہ اتنے وقت سے لے کر اتنے وقت تک پانی کو تم استعمال کرو گے اور فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک نہر کا پانی میرے کھیتوں میں آئے گا اور پانی کم ہے تو اس کے حل کے لیے کوئی طریقہ ایجاد کریں۔ لیکن یہاں ہوتا یوں ہے کہ اس مسئلے پہ باقاعدہ جنگ و جدال شروع ہو جاتا ہے اور بعض اوقات دونوں اطراف سے جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ اس اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟

حقیقت میں یہ سوال پوچھتا ہوں اور جوب کا طلبگار ہوں؟

یہ کہتا ہوں کہ ہمارے اس ملک میں خون کیوں اتنا سستا ہے؟اس حد تک ہمیں کس نے پہنچایا؟ یہ قضیہ سیاسی نہیں بلکہ یہ خون و وطن لوگ ۔۔۔۔۔

دسیوں مثالیں ایسی ہیں کہ اگر بیان کی جائیں تو کرسکتے ہیں یہ ہمارا ملک ہے اور ہم اسی معاشرے کے فرد ہیں لہٰذا مسائل کو حل کرنے کے لیے اتنی سستی کیوں کی جارہی ہے نہریں گندگی سے بھری ہوئی ہیں ہم اپنی اولاد کو اس سلسلہ میں تعلیم و تہذیب سے آراستہ کیوں نہیں کرتے۔ پہلے پہل طالب علموں کے اندر استاد کا احترام اور ہیبت ہوا کرتی تھی لیکن آج طالب علم اپنے استاد کی نا تو عزت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اندر استاد کا کوئی احترام موجود ہے۔ ہم آج اس حالت میں کیسے پہنچ گئے ہیں؟ حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور آج ہم اس کے درمیان اس طرح سے گھرے ہوئے ہیں کہ ہمیں اس کی ضخامت کا احساس نہیں اور ہم اس حالت میں بتدریج پہنچے ہیں ۔ کون ہے وہ جو تاریخ اور عوام کے سامنے کھڑے ہو کر کہے کہ میں اس کا ذمہ دار ہوں؟ سڑک، بازار اور ہر جگہ کوئی ایسی چیز نہیں رہی کہ جسے پہلے برائی اور عیب شمار کیا جاتا تھا کسی جگہ احترام نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ ہر جگہ افرا تفری اور بغاوت کی صورت حال ہے اس کا ذمہ دار حکومت، ادارے، خاندان اور سکول ہے لہٰذا ہر ایک کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اپنے فرائض پر عمل کرنا چاہیے۔ میرے بھائیو! میری اس گفتگو کا مقصد اس صورت حال کے خطرہ سے متنبہ کرنا ہے میری گزارش ہے کہ اس صورت حال کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر سے ابتداء کرنی چاہیے ہمیں اپنے بچوں کو موجودہ صورت حال کے برعکس تربیت دینی ہو گی اور بلند اخلاق اور اچھی عادات کی طرف لوٹنا ہو گا اور اسی کی اپنے بچوں کو تعلیم دینی ہو گی۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ صورت حال کو اس حد تک نا جانے دیں کہ جس کے بعد اسے کنٹرول کرنا ناممکن ہو جائے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ آپ سب کو اور آپ کے عزیز و اقارب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اس ملک میں ہر طرح کی خیر و برکت سے ہمیں نوازے۔

منسلکات