انیسویں تاریخ کی لکھی ہے یہ اخبار مسجد میں گئے بہر عبادت شہہ ابرار
جب سجدہ اول میں گئے حیدر کرار قاتل نے لگائی سر پُرنور پر تلوار
سر ہوگیا دو ٹکڑے محمد کے وصی کا پھر دو سرے سجدے کو اٹھا سر نہ علی کا
دریا کی طرح خون ہوا زخموں سے جاری مسجد میں تڑپنے لگا وہ عاشق باری
طاقت نہ سنبھلنے کی رہی غش ہوا طاری سرپیٹ کے سب کرنے لگے گریہ و زاری
رونے جو ملک ما سبق کن فیکون کو اک زلزلہ تھا منبر و محراب و ستوں کو
افلاک پر سر پیٹ کے جبرئیل پکارے فریاد ہے ظالم نے ید اللہ کو مارا
سر ہوگیا سجدے میں دو نمازی کا دو پارا ہے غرق نجوں برج امامت کا ستارا
ماتم کا ہوا جوش صف جن و ملک میں فرق آیا ضیائے ماہ و خورشید فلک میں
مارا اسے جو زینت افلاک و زمیں تھا مارا اسے جو خاتم قدر کا نگیں تھا
مارا اسے جو راز امامت کا امیں تھا مارا اسے جو شاہنشہاہ دیں تھا
پہنچاتا تھا جو روزہ کشائی فقراء کو ان روزوں میں زخمی کیا مہمان خدا کو
کوفہ میں یکایک یہ خبر ہوئی جب تشہیر سر پیٹتے مسجد میں گئے شبر و شبیر
روتے تھے جو لوگ ان سے یہ کی دونوں نے تقریر تھا کون عدو کس نے لگائی ہے یہ شمشیر
ہم دیکھ لیں مہر رخ تابان علی کو دو بہرہ خدا راہ یتیمان علی کو
شہزادوں کے منہ دیکھ کے خلقت نے جو دی راہ ڈوبے ہوئے خون میں نظر آئے اسد اللہ
عماموں کو سر پر سے پٹک دونوں نے کی آہ اور گر کے لگے آنکھوں سے ملنے قدم ِشاہ
چلاتے تھے بیٹوں کی کمر توڑ چلے آپ دکھ سہنے کو دنیا میں ہمیں چھوڑ چلے آپ
اک شور ہے ماتم کا بپا گھر میں علی کے بیٹے لیئے جاتے ہیں جنازہ کو علی کے
خاموش انیس اب کےنہیں طاقت گفتار سینہ میں تپاں صورت بسمل ہے دل زار
خالق سے دعا مانگ کہ یا ایزد غفار آباد رہیں خلق میں حیدر کے عزادار
کیا روتے ہیں ماتم میں امام ازلی کے حقا کہ یہ سب عاشق صادق ہیں علی کے
اترك تعليق