"ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی "ایک مشہور ضرب المثل ہے جو کہ آج کے دور میں متعدد مقامات اور وقائع حیات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے جو کہ ہم تجربہ حیات سے نتائج حاصل کرتے ہیں مگر یہ بحث مشرق کی مغرب کی جانب نظر نجات پرہے جسے اہل مشرق نے باب جنت سمجھ رکھا ہے جو کسی بھی طرح ان پر کھل جائے اور وہ عبور کرجائیں اس جہنم سے فرار ہوجائیں جو اپنے آبائی وطن میں رہ رہے ہیں اسی لئے اپنے سفری سامان میں یادیں ،خواہشیں ،دکھ درد اور امیدیں باندھے عازم سفر ہوتے ہیں ۔
اس امید کے ساتھ کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور اپنے لئے روزگار کے سنہری مواقع پائیں اس بات سے غافل کہ حقوق انسان کے علمبرداد ممالک نے ان کے لئے کیا چھپا رکھا ہے ۔
حقیقت میں مغربی ممالک مانند بحر ہیں ۔۔نہ تو ہر وہ شخص جو اس کی موجوں پر سوار ہوا منزل مقصود پر پہنچ سکا اور نہ ہی ہر غوطہ خور اس کی گہرائیوں سے نفیس نگینہ ڈھونڈ لایا ۔
بہت سے اس تلاش میں مغربی معاشرے میں گم ہوگئے اور معاشرے کے لقمہ بن گئے ۔
اسی لئے غالبا مغربی باشندوں کو دیکھیں تو دینی لحاظ سے ارادی یا غیر ارادی طور پر دور ہیں اور اس معاشرے کے دفاع و بقاء میں اس طرح مگن ہوگئے کہ خود کو بھی اس غیر مقبول رویے میں ڈھال لیا ۔
اس رویے کے پیچھے دو بنیادی پہلو ہیں:
مغربی ممالک کے ہاں ایک اصطلاح "معیوب" نہیں پائی جاتی جوکہ دین اسلام میں راہ مستقیم پر ثابت رہنے کے لئے ایک بنیادی پہلو ہے جبکہ مغربی معاشرے میں ہر فعل مباح ہے ،جی چاہے جو کرے بلا حساب کرے اور اپنی شخصی آزادی کو پالیتا ہے ماسوا کسی کو نقصان پہنچائے اور حکومتی قوانین پر پیراعمل رہے ۔۔۔مشرقی ممالک میں علی الاعلان کوئی شخص بھی ایسی کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکات نہیں کرسکتا نہ صرف اتنا بلکہ معاشرہ بھی ایسے تصرفات کو قبول نہیں کرتا بلکہ اخلاق و عمل و ضوابط کے معین دائرے میں رہنے کی ہدایت کرتا ہے ۔
پس مغرب جنت کا وہ جھوٹا دروازہ ہے جس کی انتہا ایک جہنم ہے اور اس کے خوبصورت سنہری جال میں غافل گرتے ہیں مگر ماسوائے ایسے جو جانتے ہیں کہ اس گہرے سمندر سے کیسے نفیس بیش بہا خزائن نکال لائیں یہ جانتے ہوئے کہ غرق ہونا اور نجات دہندہ کا نہ ہونا ہے۔
توصیف رضا
اترك تعليق