مقدمہ: یوم عرفہ کی تقدیس اور اس کی شیعہ اہمیت
اسلام میں یوم عرفہ، جو ۹ ذی الحجہ کو آتا ہے، ایک غیر معمولی روحانی اہمیت کا حامل دن ہے، خصوصاً حج کے موقع پر اس کی مرکزی حیثیت مسلمہ ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے دین کو کامل فرمایا، اپنی نعمتوں کا اتمام کیا اور اسلام کو بحیثیت دین پسند فرمایا اسے "یوم الوقوف" بھی کہا جاتا ہے، جس میں حجاج کرام میدان عرفات میں اپنے پروردگار کے حضور دست بہ دعا کھڑے ہو کر اس کی رحمت کے طلبگار ہوتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "الحج عرفۃ" (حج عرفہ ہے)، جو اس دن کی کلیدی حیثیت کو واضح کرتا ہے
عرفہ کی عمومی اسلامی تعظیم میں شریک ہوتے ہوئے، شیعہ اسلام مخصوص اعمال اور دعاؤں پر خاص زور دیتا ہے، بالخصوص وہ جو اہل بیت علیہم السلام سے منسوب ہیں۔ یہ دن بخشش اور روحانی عروج کا ایک بے مثال موقع سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں کے لیے بھی جو حج ادا نہیں کر رہے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کا عرفہ کے دن ایک سائل کو جھڑکنا، یہ فرما کر کہ آج کے دن تو ماؤں کے شکم میں موجود بچوں کے لیے بھی خدا کے لطف و کرم سے مالا مال ہو کر سعید و خوش بخت ہونے کی امید ہے، اس دن نازل ہونے والی لامحدود رحمت کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ واقعہ اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ عرفہ کی برکات کسی خاص جغرافیائی مقام (میدان عرفات) یا مخصوص رسم (حج) تک محدود نہیں ہیں، بلکہ ہر اس شخص کے لیے عام ہیں جو خلوص نیت سے اللہ کی طرف رجوع کرے۔ یہ تصور عرفہ کی اہمیت کو خود حج کے عمل سے بھی وسیع تر کر دیتا ہے اور تمام مسلمانوں کو، خواہ وہ کہیں بھی ہوں، اس دن کے اعمال بجا لانے کی ترغیب دیتا ہے۔
شیعہ مسلمانوں کے نزدیک یوم عرفہ کی ایک منفرد خصوصیت امام حسین علیہ السلام اور کربلا میں آپ کی قربانی کے ساتھ اس کا گہرا روحانی تعلق ہے۔ یہ تعلق امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفہ کی تلاوت اور کربلا میں آپ کے روضہ مبارک کی زیارت کی پرزور تاکید کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے ۔ یہ محض ایک یادگاری عمل نہیں، بلکہ امام حسین علیہ السلام کی مثال اور وسیلے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یوم عرفہ، جسے دین کی تکمیل کا دن کہا گیا ہے ، اس دن امام حسین علیہ السلام کی دعا اور زیارت پر زور دینا شیعہ عقیدے کی اس اساس کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ دین کی تکمیل کا فہم اور اس پر عمل درآمد اہل بیت علیہم السلام کی رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔ گویا اس خاص دن امام حسین علیہ السلام سے جڑنا اس الٰہی رہنمائی سے اپنی وابستگی کا اعادہ کرنا ہے، جو شیعہ نقطہ نظر سے مکمل ایمان کا سنگ بنیاد ہے۔
۲۔ شیعہ اسلام میں یوم عرفہ کے عظیم فضائل
یوم عرفہ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت، بخشش اور دعاؤں کی قبولیت کا دن قرار دیا گیا ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ کسی بھی دوسرے دن سے زیادہ لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے ۔ یہ گناہوں سے پاکیزگی اور نجات کا ایک بہترین موقع ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شب عرفہ میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور توبہ قبول کی جاتی ہے ۔ اس رات کو عبادت میں گزارنے کا ثواب ۱۷۰ سال کی عبادت کے برابر بتایا گیا ہے ۔ بخشش کی یہ عظیم صلاحیت اس دن کی سب سے بڑی فضیلت ہے، جو کوتاہیوں کی تلافی اور اللہ سے قربت کا موقع فراہم کرتی ہے
اس دن قرآن مجید کی آیت "اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا" (آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا) (سورۃ المائدہ: ۳) کا نزول اسے گہری تاریخی اور مذہبی اہمیت عطا کرتا ہے ۔ یہ تکمیل، وحی الٰہی کے اختتام اور اسلام کے ایک جامع ضابطہ حیات کے طور پر قائم ہونے کی علامت ہے
یوم عرفہ کے مستحب اعمال:
یوم عرفہ کے لیے متعدد عبادتی اعمال کی تاکید کی گئی ہے، جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
غسل: زوال (دوپہر) سے پہلے غسل کرنا مستحب ہے ۔ یہ عمل عبادت میں مشغول ہونے سے پہلے جسمانی اور روحانی پاکیزگی کی علامت ہے۔روزہ (غیر حاجیوں کے لیے): جو لوگ حج ادا نہیں کر رہے، ان کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنا ایک مؤکدہ سنت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گزشتہ سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ تاہم، شیخ کفعمی نے فرمایا ہے کہ یوم عرفہ کا روزہ اس شرط کے ساتھ مستحب ہے کہ وہ دعائے عرفہ پڑھنے میں کمزوری کا باعث نہ بنے ۔ اس سے اعمال میں ایک درجہ بندی کا اشارہ ملتا ہے، جہاں دعا میں مشغول ہونے کی صلاحیت کو فوقیت دی جا سکتی ہے۔ یہ نکتہ عبادات کے حوالے سے ایک گہرے فہم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ روزہ جیسے جسمانی اعمال بھی باعث فضیلت ہیں، لیکن اس خاص دن پر دعائے عرفہ جیسی قلبی اور روحانی عبادت کو زیادہ یا فیصلہ کن اہمیت حاصل ہو سکتی ہے۔کثرت سے دعا اور ذکر: یہ دن خصوصیت کے ساتھ دعا کے لیے ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے روزہ کی وجہ سے دعا میں کمزوری محسوس کرنے والے کو روزہ ترک کر کے دعا پر توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیا ۔ یہ اس دن دعا کی غیر معمولی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مخصوص دعاؤں کی تلاوت، بالخصوص امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفہ اور صحیفہ سجادیہ کی ۴۷ویں دعا پر بہت زور دیا گیا ہے۔ نیز، مخصوص تسبیحات، تہلیل ("لا الہ الا اللہ")، تکبیر ("اللہ اکبر")، اور تحمید ("الحمدللہ") کا ورد بھی مستحب ہے ۔ مثال کے طور پر، "سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر" ۱۰۰ مرتبہ، سورۃ التوحید ۱۰۰ مرتبہ، اور آیۃ الکرسی ۱۰۰ مرتبہ پڑھنا ۔مخصوص نمازیں:نماز عصر کے بعد اور دعائے عرفہ سے پہلے، کھلے آسمان تلے دو رکعت نماز ادا کرنا، جس میں اپنے گناہوں کا اعتراف کیا جائے، مستحب ہے۔ اس سے میدان عرفات میں حاضری کا ثواب ملتا ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں ۔ پہلی رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سورۃ التوحید اور دوسری رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد سورۃ الکافرون پڑھی جائے ایک اور چار رکعت نماز کا بھی ذکر ملتا ہے جس کی ہر رکعت میں سورۃ الحمد کے بعد ۵۰ مرتبہ سورۃ التوحید پڑھی جائے زیارت امام حسین علیہ السلام: یہ شیعوں کے لیے عرفہ کے دن کی عبادات کا ایک اہم ستون ہے، جس کی تفصیل ایک علیحدہ حصے میں بیان کی جائے گی۔ اس کا ثواب ہزار حج، ہزار عمرہ اور ہزار جہاد کے برابر بتایا گیا ہےمستحب اعمال کی یہ متنوع فہرست – جسمانی (غسل، روزہ)، زبانی (دعا، ذکر، قرآن)، ذہنی/روحانی (غور و فکر، توبہ)، اور اظہارِ عقیدت پر مبنی اعمال (زیارت) – اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عرفہ کو ایک جامع روحانی پاکیزگی اور تجدید کا دن سمجھا جاتا ہے۔ ہر عمل مومن کے وجود اور اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کے مختلف پہلوؤں کو مخاطب کرتا ہے۔ غسل جسمانی پاکیزگی کے لیے، روزہ نفس پر قابو پانے کے لیے، دعا براہ راست گفتگو کے لیے، اور زیارت روحانی پیشواؤں سے تعلق قائم کرنے کے لیے ہے۔ شیعہ تعلیمات عرفہ کے دن روحانی تجدید کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل فراہم کرتی ہیں، جو جسم، دماغ اور روح سب کو مخاطب کرتا ہے، جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف مکمل رجوع ہے۔ یہ صرف ایک قسم کی عبادت نہیں بلکہ ایک کثیر الجہتی مشغولیت ہے۔
ذیل میں یوم عرفہ کے کلیدی اعمال کا خلاصہ ایک جدول کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے:
دعائے عرفہ امام حسین علیہ السلام: عبودیت اور معرفت کا شاہکار
امام حسین علیہ السلام نے اپنے اہل خانہ اور اصحاب کے ہمراہ، یوم عرفہ کے دن میدان عرفات میں، نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ، کعبہ کی طرف رخ کر کے، اپنے دست مبارک بلند کر کے یہ دعا تلاوت فرمائی ۔ یہ منظر خود اس دعا کی عظمت اور روحانیت میں اضافہ کرتا ہے۔ شیعہ مسلمان اپنے امام کی پیروی میں یوم عرفہ کے دن اس دعا کو پڑھتے ہیں، خواہ وہ حج کے موقع پر عرفات میں ہوں یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ۔ اکثر مساجد اور امام بارگاہوں میں اسے اجتماعی طور پر پڑھا جاتا ہے
بنیادی دینی موضوعات:
توحید اور صفات الٰہی: یہ دعا اللہ کی وحدانیت، اس کی یکتا صفات (مثلاً سمیع، بصیر، رحیم، خالق، رازق) اور اس کی مطلق قدرت و علم کے بیان سے مالا مال ہے ۔ یہ اللہ کے کسی بھی شریک یا ہمسر کی نفی کرتی ہے۔بے شمار نعمتوں پر شکرگزاری: امام حسین علیہ السلام نے انسان پر اللہ کی ان گنت نعمتوں، تخلیق و پرورش سے لے کر ہدایت و حفاظت تک، کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، اور اس بات پر زور دیا ہے کہ انسان ان نعمتوں کا کماحقہ ادراک یا شمار کرنے سے قاصر ہے ۔گناہوں کا اعتراف اور توبہ: دعا کا ایک اہم حصہ گناہوں اور کوتاہیوں کا خلوص دل سے اعتراف اور بخشش و رحمت کی پرخلوص التجا پر مشتمل ہے انسانی کمزوری اور انحصار کا اقرار: یہ دعا انسانی فقر اور اللہ کی رحمت و کرم پر کامل انحصار کو نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہے: "اِلٰہی اَنَا الْفَقِیْرُ فِی غِنَایَ فَکَیْفَ لَا اَکُوْنُ فَقِیْراً فِی فَقْرِی" (اے میرے معبود! میں اپنی بے نیازی (امیری) میں بھی تیرا محتاج ہوں، تو اپنی محتاجی (غریبی) میں کیونکر تیرا محتاج نہ ہوں گا؟) اللہ کی مدد اور حاجات کی طلب: دعا میں مختلف دنیاوی و اخروی حاجات، مثلاً ہدایت، تقویٰ، برائی سے حفاظت، عافیت اور آخرت میں کامیابی کی التجائیں شامل ہیںشیعہ علماء اور محدثین نے اس دعا کے عظیم مضامین اور گہرے معانی کی بنا پر اسے خود امام حسین علیہ السلام سے منسوب کیا ہے، اگرچہ بعض نے صرف آخری حصے کی نسبت کے حوالے سے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ دعا معرفت اور عبودیت کا ایک جامع نصاب فراہم کرتی ہے، جو دعا کرنے والے کو اللہ کی پہچان، نعمتوں کے اعتراف، گناہوں کی معافی اور فضل الٰہی کی طلب کے مراحل سے گزارتی ہے۔ اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اس پر متعدد شروحات لکھی گئی ہیں، جو شیعہ روحانیت میں اس کی گہرائی اور اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔ دعا کے اختتام کے حوالے سے مختلف روایات میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ کفعمی کی روایت "لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ..." پر ختم ہوتی ہے ، جبکہ سید ابن طاؤس نے "اقبال الاعمال" میں ایک اضافی، نہایت عرفانی حصہ بھی نقل کیا ہے
یہ دعا محض ایک التجا نہیں، بلکہ معرفت الٰہی کی طرف ایک عملی رہنمائی ہے۔ یہ صرف مانگتی نہیں، بلکہ یہ سکھاتی ہے کہ اللہ کو اس کی مخلوقات، صفات اور افعال کے ذریعے کیسے پہچانا جائے۔ امام علیہ السلام دعا کرنے والے کی فکر کو اللہ کی ذات کی گہری پہچان کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ لہٰذا، شیعہ مسلمانوں کے لیے دعائے عرفہ کی تلاوت تفکر اور معرفت کا عمل ہے۔ یہ روحانی ترقی کے لیے ایک تعلیمی وسیلہ ہے، جو براہ راست ایک معصوم امام کی طرف سے عطا ہوا ہے اور ذات باری تعالیٰ کی پہچان کا راستہ دکھاتا ہے۔
علاوہ ازیں، کربلا کے واقعات سے کچھ عرصہ قبل امام حسین علیہ السلام کا یہ دعا پڑھنا، جس میں تسلیم و رضا، اللہ پر توکل اور دنیا سے بے رغبتی کے مضامین کثرت سے پائے جاتے ہیں، امام کی اپنی اس عظیم قربانی کے لیے روحانی آمادگی کا آئینہ دار ہے۔ یہ دعا اس روحانی گہرے تعلق کی ایک جھلک پیش کرتی ہے جو امام حسین علیہ السلام کی خصوصیت تھی جب وہ اپنی شہادت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ شیعوں کے لیے، یہ عرفہ کی روحانی چوٹی کو امام کے اس سفر سے جوڑتی ہے جو حق کی خاطر حتمی موقف کی طرف تھا۔
علماء جیسے کفعمی اور سید ابن طاؤس کی طرف سے دعا کے مختلف اختتامی حصوں کا ذکر شیعہ حدیثی تحقیق کی باریک بینی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے
کہ دعا کا بنیادی، متفقہ حصہ نہایت اہم اور وسیع ہے، جبکہ اضافی حصے مزید عرفانی گہرائیوں یا نقل و روایت کے فرق کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ یہ شیعہ علمی روایت میں شفافیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اضافی عرفانی حصے، اگرچہ ان کی نسبت پر بعض کو کلام ہو، اپنے گہرے مضامین کی وجہ سے بذات خود قابل قدر ہیں اور شیعہ اسلام کی بھرپور باطنی روایت کی عکاسی کرتے ہیں۔
یوم عرفہ پر زیارت امام حسین علیہ السلام: ایک بے مثال روحانی سفر
یوم عرفہ کے دن کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت غیر معمولی فضیلت کی حامل ہے، اور آئمہ علیہم السلام سے متعدد روایات اس کے بے مثال ثواب کی تفصیل بیان کرتی ہیں
احادیث میں بیان کردہ عظیم ثواب:
حج، عمرہ اور جہاد سے موازنہ:امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص عرفہ کے دن امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرے، ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہزار حج، ہزار مقبول عمرے اور ہزار جنگوں کا ثواب لکھے گا جو کسی نبی مرسل یا امام عادل کے ہمراہ لڑی گئی ہوں 15۔بعض روایات میں امام القائم (عجل اللہ فرجہ الشریف) کے ہمراہ ایک ملین حج، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ایک ملین عمرے، ایک ملین غلام آزاد کرنے اور اللہ کی راہ میں ایک ملین گھوڑے دینے کا ثواب بھی مذکور ہے امام صادق علیہ السلام نے رفاعہ سے، جو حج پر نہ جا سکے تھے لیکن عرفہ کا دن امام حسین علیہ السلام کے روضہ پر گزارا تھا، فرمایا کہ تم نے اہل منیٰ کے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی ایک تنگ دست شخص کے لیے عرفہ کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت حجۃ الاسلام (واجب حج) کے لیے کافی ہو سکتی ہے زائرین کربلا پر اللہ کی نظر رحمت اور بخشش:روایات میں ایک حیرت انگیز مضمون یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن اہل عرفات پر نظر رحمت فرمانے سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے زائرین پر نظر فرماتا ہے اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن امام حسین علیہ السلام کے زائرین سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: "واپس جاؤ کہ تمہارے گزشتہ گناہ معاف کر دیے گئے ہیں"، اور ان کی واپسی کے بعد ستر دن تک ان کے لیے کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا ۔ ان کی حاجات پوری کی جاتی ہیں اور ان کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیںامام کے مقام کی حقیقی معرفت کا لازمی کردار:
اکثر احادیث میں یہ شرط مذکور ہے کہ یہ عظیم ثواب ان لوگوں کے لیے ہے جو "عَارِفاً بِحَقِّہِ" (ان کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے) زیارت کریں ۔ یہ معرفت ان کی امامت، ان کی قربانی، ان کی عصمت اور ان کے حجت الٰہی ہونے کی پہچان پر مشتمل ہے۔ یہ معرفت زیارت کو محض ایک جسمانی حاضری سے بڑھا کر ایمان، اطاعت اور روحانی تعلق کے ایک گہرے عمل میں بدل دیتی ہے۔ ملا محسن فیض کاشانی وضاحت کرتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام کی زیارت ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو ان پر اور ان کے مقام پر ایمان رکھتے ہیں، برخلاف حج یا جہاد کے جو ایک ناصبی (دشمن اہل بیت) بھی انجام دے سکتا ہے ۔ معرفت کی وجہ سے یہ خصوصیت اس کے بلند تر ثواب کی کلید ہے۔
یہ بار بار تاکید کہ اللہ تعالیٰ کربلا کے زائرین کی طرف اہل عرفات سے پہلے متوجہ ہوتا ہے ، ایک گہرا مذہبی بیان ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی خاطر امام حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی سے جڑنا، اس رحمت کے عظیم دن، اللہ کی توجہ حاصل کرنے کا ایک منفرد، شاید فوری، ذریعہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو شیعہ اسلام میں ایک ایسے واقعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس نے اسلام کے جوہر کو فساد سے بچایا۔ آپ کی قربانی اللہ کے حضور اعلیٰ ترین تسلیم کی عملی مثال ہے۔ عرفات دین کے نزول کی تکمیل کی علامت ہے، جبکہ کربلا اس دین کی حفاظت کی علامت ہے جو عظیم قربانی کے ذریعے ہوئی۔ معرفت کے ساتھ کی گئی زیارت ولایت (اہل بیت سے وابستگی) کا فعال اقرار اور اس فیصلہ کن قربانی کی پہچان ہے۔ ایک ایسے دن جب الٰہی رحمت کی فراوانی ہو، ایسی عظیم قربانی اور وابستگی کے مرکز کی طرف رجوع کرنا غیر معمولی طور پر مؤثر ہو جاتا ہے۔ یہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ "مکمل" دین (عرفہ) کی حفاظت اور اس تک رسائی امام حسین علیہ السلام جیسی ہستیوں سے وفاداری کے ذریعے ہوتی ہے۔
"معرفت" کی مسلسل شرط محض ایک غیر فعال علم نہیں بلکہ ایک فعال، قلبی پہچان ہے جو زیارت کے روحانی معیار اور ثواب کو بدل دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زائر کی نیت، فہم اور روحانی سمت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ شیعہ عبادات میں فکری اور روحانی مشغولیت درکار ہے۔ زیارت کے ثواب کا حج، عمرہ اور جہاد سے موازنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ شیعہ نقطہ نظر سے، یہ عمل جب معرفت کے ساتھ انجام دیا جائے، تو ایمان کے ان دیگر بنیادی ستونوں کا جوہر اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ حج میں تسلیم اور مال و آسائش کی قربانی شامل ہے۔ عمرہ میں عبادت شامل ہے۔ جہاد میں اللہ کی راہ میں جدوجہد شامل ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی زندگی اور شہادت ان تمام چیزوں کو اعلیٰ ترین درجے پر مجسم کرتی ہے۔ معرفت کے ساتھ زیارت کر کے، زائر امام حسین علیہ السلام کی جامع تسلیم، عبادت اور جدوجہد کی روح سے جڑتا ہے۔
ذیل میں یوم عرفہ پر زیارت امام حسین علیہ السلام کے تقابلی ثواب کا ایک جدول پیش کیا جا رہا ہے:
کربلا: یوم عرفہ پر زیارت کا روحانی مرکز
کربلا کی سرزمین، اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام کا حرم مقدس، ایک نہایت متبرک مقام سمجھا جاتا ہے۔ آئمہ علیہم السلام نے خود آپ کے روضے کے خاص مقام کی نشاندہی کی ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں اور روحانی سکون ملتا ہے ۔ امام علیہ السلام کی پاکیزہ روح کی موجودگی اور فرشتوں کا اجتماع اسے الٰہی برکات کا مرکز بناتا ہے ۔ امام صادق علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے زائرین کے لیے طویل دعا فرمائی، اللہ سے ان چہروں پر رحمت طلب کی جو دھوپ سے جھلس گئے، ان رخساروں پر جو قبر پر رکھے گئے، ان آنکھوں پر جو آنسو بہاتی ہیں، اور ان دلوں پر جو غمزدہ ہیں ۔ یہ روضہ پر جسمانی موجودگی اور جذباتی تعلق کی تقدیس کو اجاگر کرتا ہے۔
جبکہ عرفات حج کے مناسک کے لیے متعین مقام ہے، عرفہ کے دن کربلا شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک متوازی روحانی مرکز بن جاتا ہے۔ اس دن کربلا میں زیارت پر زور ایک منفرد روحانی جغرافیہ تخلیق کرتا ہے جہاں عرفہ کی برکات سید الشہداء سے تعلق کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کربلا کے زائرین کی طرف پہلے متوجہ ہونے سے متعلق روایات کربلا کو عرفہ کی الٰہی رحمت حاصل کرنے کے لیے ایک اولین مقام کے طور پر قائم کرتی ہیں۔ عرفہ کے دن سے عید الاضحی تک کربلا میں قیام اس سال کی برائیوں سے حفاظت کے لیے مستحب قرار دیا گیا ہے ۔ یہ اس مقدس وقت کے دوران کربلا میں ہونے سے منسلک روحانی مضبوطی کی ایک توسیع شدہ مدت کی نشاندہی کرتا ہے۔ زیارت کو ایک "قلبی اور روحانی رابطہ" کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو زائر امام علیہ السلام کے ساتھ قائم کرتا ہے، خواہ وہ قریب ہو یا دور، اگرچہ روضہ پر جسمانی موجودگی پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے
کربلا، خاص طور پر عرفہ کے دن، ان لوگوں کے لیے جو امام حسین علیہ السلام کی قربانی کے جوہر اور اہل بیت علیہم السلام کی ولایت کے متلاشی ہیں، ایک روحانی قبلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ عرفہ کے دن کربلا پر شدید توجہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں عرفہ کی بخشش اور الٰہی تعلق کی "روح" کا گہرا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ حج کا متبادل نہیں، بلکہ ایک گہرے روحانی تجربے کا متبادل یا تکمیلی راستہ ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو حج ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ایک انتہائی مقدس دن (عرفہ) کا ایک انتہائی مقدس مقام (کربلا، امام حسین علیہ السلام کا روضہ) اور ایک انتہائی مقدس عمل (معرفت کے ساتھ زیارت) کے ساتھ جمع ہونا روحانی تبدیلی کے لیے ایک طاقتور امتزاج پیدا کرتا ہے۔ شیعہ اسلام میں عرفہ کے دن کربلا میں زیارت پر زور اس اصول کا بھرپور استعمال کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرد کی روحانی قبولیت اور الٰہی فضل کا نزول اس وقت زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے جب یہ مقدس جہتیں ہم آہنگ ہوں، جس کے نتیجے میں غیر معمولی ثواب اور بخشش حاصل ہوتی ہے۔
یوم عرفہ پر کربلا میں زیارت امام حسین علیہ السلام کے آداب
یوم عرفہ پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے مخصوص آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا مقصد زائر کے روحانی تجربے کو بڑھانا اور اس عمل کی قبولیت کو یقینی بنانا ہے۔
زیارت کے لیے جسمانی اور روحانی تیاری:غسل: روضہ مبارک کی طرف جانے سے پہلے غسل کرنا، اگر ممکن ہو تو دریائے فرات کے پانی سے ۔ یہ پاکیزگی کی علامت ہے۔پاک صاف لباس: اپنے بہترین اور پاکیزہ ترین کپڑے پہننا سکون و وقار: روضہ کی طرف سکون، وقار اور سنجیدگی کے ساتھ چلنا نیت: نیت خالص ہونی چاہیے، یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا بذریعہ اس کے محبوب بندے کی زیارت ۔ امام کے مقام کی معرفت روحانی تیاری کا ایک اہم حصہ ہے مخصوص دعائیں، سلام اور زیارت کے متون:حرم کے دروازے پر: حرم کے دروازے پر پہنچ کر "اللہ اکبر" اور مخصوص حمد و ثنا اور سلام پڑھنا ۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام آئمہ علیہم السلام پر سلام شامل ہے۔زیارت کی تلاوت:امام علیہ السلام کے سرہانے کی طرف کھڑے ہو کر مخصوص زیارت نامے پڑھے جاتے ہیں۔ یہ متون اکثر امام حسین علیہ السلام کو انبیاء (آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین) اور آئمہ (علی علیہ السلام، فاطمہ سلام اللہ علیہا) کا وارث قرار دیتے ہوئے شروع ہوتے ہیں ان میں آپ کے قیامِ نماز، ادائیگی زکوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اور آپ کی مخلصانہ جدوجہد اور شہادت کی گواہی دی جاتی ہے ان میں آپ کے قاتلوں اور ظالموں پر لعنت بھیجی جاتی ہے مفاتیح الجنان میں یوم عرفہ کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے تفصیلی متون موجود ہیں مخصوص دعائیں: زیارت کی نماز کے بعد، اپنے لیے، اپنے اہل خانہ اور مومنین کے لیے دعا کرنی چاہیے روضہ پر اعمال:ضریح کو بوسہ دینا: یہ محبت اور احترام کا اظہار ہے نماز زیارت ادا کرنا: عموماً امام علیہ السلام کے سرہانے دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے، جس کا ثواب آپ کو ہدیہ کرنے کی نیت سے ہو کربلا میں دیگر شہداء کی زیارت:حضرت علی اکبر علیہ السلام: امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بعد، امام علیہ السلام کے پائنتی جانب جا کر حضرت علی اکبر علیہ السلام کی قبر کی زیارت کی جاتی ہے اور ان کے لیے مخصوص سلام پڑھا جاتا ہے دیگر شہدائے کربلا: پھر تمام شہدائے کربلا کو ایک عمومی سلام پیش کیا جاتا ہے، جس میں ان کی قربانی اور مقام کا اعتراف ہوتا ہے حضرت عباس علیہ السلام: حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت بھی نہایت تاکید کے ساتھ مستحب ہے، جس میں ان کے روضے پر مخصوص سلام اور دعائیں پڑھی جاتی ہیں وداع: روانگی کے وقت، ایک مخصوص زیارت وداع پڑھی جاتی ہےیہ تفصیلی آداب محض رسمی کارروائیاں نہیں ہیں، بلکہ زائر میں بہترین روحانی کیفیت پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ غسل سے لے کر مخصوص تلاوت تک ہر عمل کا مقصد جسم کو پاک کرنا، ذہن کو مرکوز کرنا اور دل کو ایک گہرے روحانی تجربے کے لیے کھولنا ہے۔ زیارت کے آداب ایک قسم کی روحانی ٹیکنالوجی ہیں۔ ان پر عمل کر کے، زائر نہ صرف اعمال انجام دے رہا ہوتا ہے بلکہ اپنی داخلی حالت کو بھی اس طرح ترتیب دے رہا ہوتا ہے کہ وہ مقدس روضے پر موجود الٰہی برکات اور روحانی فیوضات کے لیے زیادہ قبول کرنے والا بن جائے، جس سے زیارت کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ زیارت ناموں کے مندرجات، جن میں امام علیہ السلام اور ان کے وفادار ساتھیوں پر سلام اور ان کے دشمنوں پر لعنت شامل ہے ، شیعہ اصولوں تولّی (اہل بیت اور ان کے پیروکاروں سے محبت) اور تبرّی (ان کے دشمنوں سے بیزاری) کی ایک طاقتور تجدید کا کام کرتے ہیں۔
عرفہ کی برکات اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت کو اپنانا
یوم عرفہ، الٰہی رحمت، بخشش، دعاؤں کی قبولیت اور روحانی تجدید کا ایک عظیم موقع فراہم کرتا ہے۔ اس دن کے اعمال، بالخصوص امام حسین علیہ السلام کی دعائے عرفہ، اس روحانی سفر میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کی لازوال میراث اور آپ کی زیارت کے ذریعے روحانی عروج کا راستہ شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک روشن مینار ہے۔ یوم عرفہ پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت، جب معرفت اور آداب کی پابندی کے ساتھ انجام دی جائے، تو روحانی ترقی، گناہوں کی بخشش اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک بے مثال موقع فراہم کرتی ہے۔ اس دن امام حسین علیہ السلام اور کربلا سے تعلق شیعہ روحانیت کا ایک منفرد اور نہایت عزیز پہلو ہے، جو اہل بیت علیہم السلام کے لیے گہری محبت اور احترام کی عکاسی کرتا ہے، جو الٰہی قربت کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔
عرفہ اور عاشورہ کے درمیان شیعہ شعور میں ایک گہرا روحانی ربط پایا جاتا ہے۔ اگرچہ عرفہ حج اور الٰہی رحمت کی چوٹی ہے، اور عاشورہ ایک گہرے سانحے اور یاد کی علامت ہے، لیکن عرفہ کے دن امام حسین علیہ السلام پر شیعہ توجہ ایک روحانی پل قائم کرتی ہے۔ امام کی طرف سے عرفات میں پڑھی گئی دعا، جو بعد میں کربلا میں شہادت سے ہمکنار ہوئے، الٰہی پہچان (عرفہ) کے موضوعات کو حتمی قربانی (عاشورہ) سے جوڑتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے لیے عرفات سے کربلا تک کا سفر ایمان کے سفر کی ایک دردناک یاد دہانی بن جاتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام، جنہوں نے ظلم کے خلاف قیام کیا، ان پر زور دینا اس بات کا متقاضی ہے کہ عرفہ اور ان کی زیارت کے روحانی فوائد کو اپنی زندگی میں انصاف اور راستبازی کو برقرار رکھنے کے عزم میں تبدیل کیا جائے، امام کی مثال پر عمل کرتے ہوئے۔ زیارت اخلاقی اور روحانی تحریک کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا، اس مبارک دن کی برکات کو خلوص نیت سے عبادت کر کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی معصوم آل علیہم السلام کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنا کر حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔