دنیاوی پریشانیاں اور توسل اہل بیت علیہم السلام کے ذریعے حل

زندگی میں چار چیزوں کا وجود اچھا ،برا،خوب و بد،روشنی اور تاریکی تھا اور ہے گا۔

اسی طرح اضطراب اور پریشانیاں بھی بشری زندگی کے لئے ضروری ہیں اور ان کا نہ ہونا اور عدم پریشانی ماہرین نفسیات کے نزدیک بھی ایک پاگل پن ہے

اس زمانے میں صنعتی معاشرے نے دین اور اخلاقی اقدار سے منھ پھیر لیا ہے جس کی بناء پر اس زمانے میں ہر زمانے سے زیادہ پریشانیاں نظر آرہی ہیں ۔تنہائی کا احساس ،انسانی اقدار کا منفی ترقی پر بھینٹ چڑھ جانا،بیچارگی کا احساس دیو پیکر مشینی زندگی کے مقابلے میں لاشعوری غلامی ،تاریک مستقبل زندگی کے مختلف میدان میں ناکامی،علم میں ،ملازمت میں ،تجارت میں ،گھریلو زندگی میں ،اولاد کی تعلیم وتربیت میں ،ان کے مستقبل  کے بارے میں لاحق پریشانیاں۔

اسی بناء پر پریشانیاں اس دور کی ذات میں داخل ہو کر جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لہذا ضروری ہے کہ صحیح طریقے سے ان پریشانیوں کا مقابلہ کیا جائے اور ان کا حل تلاش کیا جائے  تاکہ ہر فرد کامیاب زندگی بسر کرسکے۔اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس علم پر دسترس ہونی چاہئے کہ پریشانیوں پر ہم خود غلبہ حاصل کر لیں اور زندگی کی روشنی اور خوبصورتی سے فائدہ اٹھا سکیں ۔

چونکہ زندگی ایک ایسا لہریں مارتا ہوا سمندر ہے جس میں ہر لمحہ ڈوب جانے کا خطرہ ہے  اور اس سمندر سے گذرنا ہر فرد کے لئے ضروری ہے  اور ڈوبنے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک ایسے وسیلے کی ضرورت ہے جس کی بناء پر اپنے آپ کو سطح آب پر محفوظ رکھ سکیں

اسی لئے ہر طرح کے وسائل سے لیس کشتی کی ضرورت ہے یا پھر انسان باقاعدہ تیرنا جانتا ہو ورنہ اس کے بغیر متلاطم موجوں اور پریشانیوں سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے

اس سلسلے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہشام سے ارشاد فرمایا کہ حکیم لقمان نے اپنے فرزند سے کہا :

دنیا عمیق سمندر ہے کافی انسان اس میں غرق ہو چکے ہیں تقوی اور پرہیزگاری تمہاری کشتی جو ایمان سے بھری ہوئی ہو اس کا باد بان خداپر توکل ہو ۔ اس کا محافظ عقل و فکر ہو اور اس کا محافظ عقل و فکر ہو ۔اس کا ناخدا علم اور تدبر ہو اس کے رہنے والوں میں صبر و تحمل ہو تو سمندر کی طوفانی یا موجوں کے تھپیڑے سے شکستہ اور غرق نہیں ہوگے ۔

ہاں یقیناً ایسی مضبوط کشتی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے زندگی کے پر ہول اور خطرناک سمندر کو پار نہیں کیا جاسکتا ۔ ایمان ، صبر و تحمل ،مضبوط ارادہ ،خدا پر توکل اور اس کی توفیقات کے بغیر زندگی کے نشیب و فراز پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

کیونکہ مادی علوم صرف انسان کے جسمانی اور مادی امور کی ضرورت پورا کرتے ہیں اور انسانی ضرورت کا اہم جزو یعنی روح اور اس کی معنوی ضرورتوں  سے بالکل نظر پھیرے ہوئے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے جس کی بناء پر ہر طرف سے پریشانیوں اور اضطراب نے انسان کو گھیر لیا ہے۔

اسی لئے مذہبی اور حقیقی ایمان کے بغیر انسان کو سکون نہیں مل سکتا اور قران کریم نے یہ بات بہت اچھے طریقے سے بتائی ہے

"جو شخص خدا کی یاد سےغفلت برتے گا اور دین و ایمان سے روگردانی کرے گایقینا اس کی زندگی  تنگ، رنج و غم  اور درد و الم میں بسر ہوگی"۔

تنگ و تاریک،اضطراب و پریشانی سے بھر پور زندگی بے دینی اور فکری و معنوی پناہ گاہ نہ ہونے کا نتیجہ ہے دین و ایمان کے بغیر انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خلاء محسوس کرتا ہے اور پریشانیوں میں گھر جاتا ہے اس ہولناک تباہی اور مہلک بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان دین و مذہب کو اختیار کرے اور خدائے واحد پر ایمان لائے۔

منسلکات