وہ صاحبان عز وشرف کہ جن کہ صدقے میں کائنات بنی ، جن کے طفیل میں اس عالم کو خلقت ہستی عطا ہوا ۔ جن کے سبب اس عدم کو وجود کی پوشاک ملی ۔ اگر اس پر کوئی مصیبت آئے ، اذیت پہونچے اور یہ عالم خاموش رہے تو احسان فراموشی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہادت امام حسین علیہ السلام پر ہرشئ نے خون کے آنسو بہائے ۔ غم والم پر گریہ وزاری کی ، مصائب حسین علیہ السلام پرماتم کیا ۔
1۔ ابو نعیم کی روایت ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے تو بارش ہوئی ، ہم نے صبح کو دیکھا تو ہمارے ڈول اور مٹکے اور ہر چیز خون سے لبالب بھری ہوئی تھی ۔
2۔ ام حبان کہتی ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے تین دن ہم پر اندھیرا چھا گیا ۔ اور اگر کوئی بیت المقدس کا پھتر اٹھایا جاتا تو اس کے نیچے سے تازہ خون پایا جاتا تھا ۔
3۔ سفیان ثوری بیان کرتے ہیں کہ میرے دادی شہادت امام حسین علیہ السلام کے وقت جوان تھیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آسمان ان پر کئی دن روتا رہا ہے ۔
4 ۔ عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں تحریر کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر سات دن تک برابر آسمان روتا رہا ہے ۔ دیواروں کو دیکھتے تھے تو گویا ان پر چادریں رنگین پڑی ہوئی ہیں ، تین دن تک اندھیرا رہا ۔ پھر آسمان پر سرخی نمودار ہوگئی ۔
5 ۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے دن کوئی دنیا کا پتھر نہیں اٹھایا گیا مگر یہ کہ اس کے نیچے تازہ خون نہ ہو ۔ آسمان سے خون برستا رہا، اور اس کا اثر ایک مدت تک کپڑوں میں رہا ۔ یہاں تک کہ وہ کپڑے پھٹ گئے ۔
6 ۔ صواعق محرقہ میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا سراقدس جب دارالامارہ ابن زیاد لعین میں لایا گیا تو دیواروں سے خون جاری ہوگیا ۔
7 ۔ ثعلبی روایت کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر آسمان روتا رہا اور اس کا گریہ سرخی کا نمودار ہوتا تھا ۔
8 ۔ صواعق محرقہ میں ہے کہ آسمان کے کنارے امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد چھ ماہ تک سرخ رہے اور پھر وہ سرخی ہمیشہ نمودار ہونے لگی ۔
9 ۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ یہ سرخی جو شفق کے ساتھ ہے امام حسین علیہ السلام کے قتل سے پہلے نہ تھی ۔
10 ۔ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ اس سرخی نمودار ہونے کی حکمت یہ ہو کہ غضب مند کو سرخ کردیتا ہے اور اللہ جسم سے منزہ ہے بس اس کا غضب ان لوگوں پر جن کے ہاتھ سے امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے حمرہ افق کے پیرایہ میں ظاہر ہوا۔
یہ تو غیر ذوی العقول کے گریہ کا عالم تھا اسی طرح انسان اور جنوں نے گریہ و زاری کی اور اب تک یہ گریہ و زاری کا سلسلہ جاری ہے ۔ کائنات کی ممتاز اور عالم کی سرمایہ افتخار شخصیتوں کے گریہ کا تذکرہ کہ جن کی مسرت ہمارے لئے باعث فخر و مباہات اور ان کا اسوہ حسنہ ہمارا لائحہ عمل قرار دیاہے ۔
جناب آدم کربلامیں:
جلاءالعیون میں جناب علامہ باقر مجلسی اور ریاض الشہادت میں حاجی محمد حسن قزوینی نے فرمایا کہ معتبر حدیث میں ہے کہ جس وقت حضرت آدم زمین پر تشریف فرما ہوئے تو جناب حوا کو نہ پایا ۔ لہذا مختلف خطہ ہائے ارض پر تلاش حوا میں سرگردان و حیران و پریشان رہے کہ ایک مرتبہ زمین کربلا پر قدم رکھا اور غم والم کا احساس ہوناشروع ہوا ، دل مغموم چشم پر نم سینہ میں اظہار تاسف مشہد امام حسین علیہ السلام کے نزدیک پہونچے کہ ایک بار ٹھوکر لگی زمین پر گرپڑے ، پنڈلی میں زخم آیا خون جاری ہوا ۔ بارگاہ باری میں الحاح و زاری کی ۔ معبود بے مثال مختلف جگہ میں پھرا لیکن کسی جگہ ایسا نہ ہو ا۔ کیا وجہ ہے کے مجھے یہ صدمہ جانکاہ پہونچا ۔ وحی الٰہی ہوئی اے آدم ! آپ کی اولاد میں ایک عظیم ہستی حسین علیہ السلام پیداہوگا ۔ جو اس جگہ پر بصد ظلم و جفا شہید کیا جائے گا۔ جس پر وحوش و ملک طیور وفلک سب ہی گریہ و زاری کریں گے ۔ ہم نے چاہا کہ آپ کو بھی اس حادثہ عظمیٰ سے خبر داد کیا جائے ۔ اور ان کے مصائب وشدائد میں شریک کریں تمھارا خون جو اس جگہ ٹپکا تو یہ اس خون سے مل جائے گا ۔
جناب آدم علیہ السلام نے عرض کی اے قدوس منان حسین علیہ السلام کیا کوئی نبی ہوگا ؟ ارشاد باری ہوا کہ نہیں بلکہ نبی آخر الزمان کا نواسہ ہواگا ۔ جناب آدم نے عرض کیا اس پر ظلم و ستم کون کرے گا ؟ بتایا گیا کہ وہ یزید پلید مردود و شقی ہوگا ۔ زمین وآسمان کی اس پر لعنت ہوگی ۔ جناب جبرئیل سے جب حضرت آدم علیہ السلام نے معلوم کیا کہ مجھے اس سلسلہ میں کیا امر کیا گیا ہے ، بتایا کہ آپ بھی اس شقی پر لعنت کیجئے ، تاکہ اجر عظیم کے مستحق ہوں پس روایت میں ہے کہ آپ نے چار مرتبہ اس پر لعنت کہی اور اس کے بعد میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں جناب حوا سے ملاقات ہوئی اور آدم علیہ السلام کے غم و الم میں کمی ہوئی ۔
حضرت نوح علیہ السلام ارض نینویٰ میں :
جناب نوح علیہ السلام کی قوم پر جب بارش کی صورت میں عذاب نازل ہوا اور آپ کشتی پر سوار ہو کر گردش کرنے لگے تو زمین کربلاپر بھی سفینہ نوح علیہ السلام پہونچا لیکن وہاں ایک قسم کا اضطراب و طلاطم نظر آیا ، کشتی بھنور میں پھنسی گرداب نے ایک مرتبہ جھٹکا دیا کہ نوح پر غرق کا خطرہ لاحق ہوا غم و الم کی کیفیات سینہ میں موجزن ہوئیں ۔ بارگاہ الٰہی میں روکر ارشاد کیا معبود برحق خطہ ارض پر چہار طرف گردش کی لیکن یہ بے چینی و پریشانی کہیں طاری نہ ہوئی ۔ مالک سبب حیرانی وپریشانی کیا ہے ؟ ۔ معلوم نہیں ہوتا تو رب ودود ہے ظاہر فرماتا کہ اس اندوہ سے نجات پاؤں جبرئیل خدائے جلیل کی طرف سے نازل ہوئے اور عرض کی اے نوح اس سرزمین پر امام حسین علیہ السلام شہید کئے جائیں گے جو خاتم النبیین کی صاحبزادی کےفرزند اورخاتم الاوصیاءکا لال ہوگا ۔ جناب نوح نے جبرئیل جیسے ذاکر سے مصائب حسین علیہ السلام سنے کہ دفعتاً گریہ طاری ہوا۔ حال گریہ میں معلوم کیا اے جبرئیل یہ ظلم کا بانی اور ستم و الم کا خوگر کون شقی ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کے وہ یزید نابکار ہوگا جس پر ساتوں زمین و آسمان کے ساکن لعنت کریں گے ۔ آپ بھی اسی ملعون ومطرود پر لعنت کیجئے تا کہ کشتی کو نجات اور دل کو مراد ملے ۔ آپ نے اس پر لعنت کی تو آپ کی کشتی نے قرار لیا ۔ اور آپ کو نجات حاصل ہوئی ۔ کشتی دریائے جودی پر جاکے ٹھری ۔ نوح علیہ السلام شکر خالق بجا لائے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام غاضریہ میں :
جناب ابراہیم علیہ السلام گھڑے پر سوار اس طرف سے گزر رہے تھے کہ دفعتاً آپ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی آپ گھوڑے سے زمین پر گرے سر زخمی ہوا خون جاری ہوا آپ استغفار باری میں مشغول ہوئے اور پروردگار سے نہایت فروتنی سے گزارش کی ، مالک ظاہر فرما کہ مجھ سے ایسی کون سی کوتاہی سرزد ہوئی جس کا سبب یہ ہے ۔ جناب جبرئیل خدائے جلیل کی طرف سے حاضر ہوئے کہ اے خلیل خدا تم سے کوئی قصور و کوتاہی نہیں ہوئی بلکہ یہ زمین مشہد حسین علیہ السلام ہے یہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کا لخت جگر ، علی علیہ السلام کا نور نظر تین روز کا بھوکا پیاسا جورو جفا کے ساتھ ظلم کیا گیا میں نے چاہا کے آپ بھی اس مصیبت حسین میں شریک ہوں اور حصہ لیں جناب ابراہیم علیہ السلام نے پھر عرض کی اے جبرئیل اس سعادتمند کا قاتل کون ہوگا ۔ آپ نے جواب دیا کہ یزید بے دین ہوگا جس پر اہل زمین و آسمان لعنت کریں گے ۔ اے ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے قلم لے اس مردود پر لعنت لوح پر لکھی تو ارشاد باری ہوا کہ اس لعنت لکھنے کے سبب ، اے قلم تو مستحق ثناءاور سزاوار مدح ہوا ہے ۔ یہ سن کر جناب ابراہیم علیہ السلام نے جانب آسمان اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور یزید پلید پر لعنت کی ۔ جناب ابراہیم علیہ السلام کے گھوڑے نے آمین کہی ، آپ نے اس سے کہا کہ اے اسب تونے کیا سمجھ کر آمین کہی تو اس نے جواب دیا کہ مجھے اس پر فخر ہے کہ آپ جیسا نبی مجھ پر سوار ہوتا ہے اور میں اس کی نحوست و پلیدگی کو سمجھ گیا اسی سبب میں لعنت کی ہے اسی کی وجہ سے آپ کو یہ رنج وتعب ہوا ہے ۔
جناب اسماعیل شط فرات میں :
جناب اسماعیل علیہ السلام کی بھیڑ اور بکریاں فرات کے کنارے چرا کرتی تھیں ، ایک دن آپ کا چرواہا آپ کی خدمت میں پہونچا اور عرض کیا کہ یاحضرت کئی دن سے بھیڑ بکریاں نہ گھاس چر رہی ہیں اور نہ پانی ہی پیتی ہیں ۔ آپ بھی متحیر ہوئے ۔ بارگاہ الٰہی میں عرض کی کہ معبود اس کا کیا سبب ہے جناب جبرئیل فرستادہ خدائے جلیل خدمت اسماعیل میں آئے اور عرض کیا کہ اس کا سبب آپ ان جانوروں سے خود ہی معلوم فرمالیں ۔ جب جناب اسماعیل علیہ السلام نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے بے زبان فصیح اس طرح جواب دیا کہ اے ذبیح اللہ ہم کو خدا کی طرف سے وحی ملی ہے کہ پیغمبر آخر الزمان کا نواسہ تین دن کا بھوکا پیاسا اس جنگل بے آب و گیاہ میں شہید کیا جائے گا اور بہت مصیبتیں اور اذیتیں ان پر ان کے با وفا اصحاب پر ڈالی جائیں گی ۔ اس سبب سے ہم ان کے ماتم میں مشغول ہیں اور اسی کا ہم کو غم واندوہ ہے جس کے سبب ہم گھاس اور پانی سے گریز کئے ہیں پھر آپ نے معلوم کیا کہ ان کا قاتل کون ہے ان حیوانوں نے جواب دیا کہ یزید پلید ، اس پر آسمان و زمین کے رہنے والے لعنت کریں گے یہ سن کر جناب اسماعیل علیہ السلام نے اس پر لعنت کی اور اپنی دنبیاں وہاں لے گئے ۔
جناب سلیمان علیہ السلام حائر حسینی میں :
ایک روز جناب سلیمان علیہ السلام اپنی بساط پر سوار دوش ہوا پر تشریف لے جا رہے تھے کہ یکا یک زمین کربلا کے مقابل آپ کا بساط پہونچا تو ہوا نے اس کو تین بار اس کو جھٹکا دیا۔ جناب سلیمان علیہ السلام کو خوف ہوا کہ کہیں بساط الٹ نہ جائے اس کے بعد ہوا بند ہوگئی بساط چلنے سے رک گئی اور کربلا کی زمین پر اتر آئے جناب سلیمان علیہ السلام نے غصہ سے ہواسے فرمایا کہ تم کیوں تھم گئی تو اس نے جواب دیا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ حسین مظلوم اس زمین پر قتل کیا جائے گا ۔ معلوم کیا کون حسین ؟ کہا احمد مختار کا نواسہ ، حیدر کرار کا لخت جگر ۔ معلوم کیا اس کا قاتل کون ہوگا ؟ کہا کہ یزید ملعون ۔ اور اہل ارض وسماءاس پر لعنت کریں گے پس فوراً جناب سلیمان علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے نفرین کی ، اس لعنت کو سن کر اور آدمیوں اور جنوں نے آمین کہی ۔ اسی وقت ہوا چلنا شروع ہوئی ۔ اور بساط زمین سے بلند ہونا شروع ہوئی ۔ جناب سلیمان علیہ السلام پھر وہاں سے تشریف لے گئے ۔
جناب موسیٰ و یوشع بن نون علیہماالسلام مشہد حسین علیہ السلام میں :
ایک روز جناب موسیٰ علیہ السلام اپنے وصی جناب یوشع کے ہمراہ اس سر زمین پر وارد ہوئے اور ادھر چل پھر رہے تھے کہ جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا اور پیر کانٹوں پر پڑا اور ایسا کانٹا چبھا کہ خون جاری ہو گیا ۔ بارگاہ معبود میں عرض کی خدا وندا مجھ سے کوئی قصور سرزد ہوا ہے جس کا یہ پھل میسر ہوا ہے ۔ جواب ملا نہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ زمین مشہد حسین علیہ السلام ہے ۔ آپ کے خون نے ان کے خون سے موافقت کی ۔ عرض کیا یہ حسین کون بزرگوارہیں؟ وحی ہوئی نواسہ رسول ، جناب احمد مختار ، فرزند عالی وقار جناب حیدر کرار علیہ السلام ۔ سنتے ہی عرض کیا کہ ان کاقاتل کون ہے ۔ جواب ملا وہ بدبخت و بد شعار یزید ناہنجار ہے ، جس پر جن وانس ہی نہیں بلکہ دریائی مچھلیاں اور صحرا کے وحشی جانور تک لعنت کریں گے یہ سن کر جناب موسیٰ و یوشع علیہماالسلام دونوں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور یزید نجس ونحس پر لعنت کرکے وہاں سے روانہ ہوئے ۔
جناب عیسیٰ علیہ السلام ماریہ میں :
بحار میں بھی جناب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ماریہ میں اس طرح مرقوم ہے کہ آپ مع اپنے حواریوں کے سیر کرتے ہوئے زمین کربلا پر تشریف لائے کہ ناگاہ ایک شیر پر وقار نے آکر سامنے سے راستہ روک لیا اور سر راہ بیٹھ گیا ۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے شیر سے معلوم کیا کہ تمھارے راستہ روکنے کا مقصد کیا ہے اور تم ہمارے آگے جانے سے کیوں مانع ہو ؟ شیر گویا ہوا کہ جس وقت تک آپ یزید پر لعنت نہ کریں گے میں راستہ نہ چھوڑوں گا۔ آپ نے فرمایا یزید کون ہے؟ تو اس نے بتایا قاتل حسین علیہ السلام ۔ آپ نے فرمایا حسین علیہ السلام کون ہیں ؟عرض کیا پیغمبر آخر الزمان محمد مصطفی (ص) کا نواسہ اور علی مرتضیٰ ولی الٰہی کا فرزند نامدار ۔ پھر شیر نے بتایا کہ قاتل حسین علیہ السلام پر سب وحشی جملہ چوپائے تمام درندے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے ہیں اور خاص کر روز عاشورہ ۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے اور یزید کے حق بددعا اور لعنت کی ۔ شیر راستہ سے ہٹ گیا اور عیسیٰ علیہ السلام روانہ ہوگئے ۔
گریہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ :
بیہقی نے روایت کی ہے کہ ام الفضل نے بیان کیا کہ میں امام حسین علیہ السلام کو گود میں لئے ہوئے ایک روز جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے حضور گئی اور میں نے ان کو حضور کے گود میں رکھ دیا ۔ پھر مجھے ایک کام پیش آیا اور جب میں اس سے فارغ ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کی چشم مبارک اشکبار ہیں پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل تشریف لائے ہیں اور خبر دی ہے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت قتل کردے گی ۔ اور مجھ کو سرخ مٹی لاکر دکھائی ہے ۔
گریہ مولائے کائنات علیہ السلام : شعبی کہتے ہیں کہ صفین کی طرف جاتے ہوئے جناب امیر المؤمنین علیہ السلام قریہ نینوا کے مقابل فرات کے کنارے گزرے اور کھڑے ہوکر پوچھا اس زمین کا نام کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کربلا ۔ آپ رونے لگے یہاں تک کہ آپ کے اشکوں سے زمین تر ہوگئی ۔ پھر فرمایا کہ ایک دن میں جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت میں گیا ۔ حضور رورہے تھے میں نے عرض کیا کہ جناب کے گریہ کا سبب کیا ہے ۔ تو حضرت نے فرمایا : ابھی جبرئیل میرے پاس آئے تھے مجھ سے کہنے لگے کہ میرا بیٹاحسین علیہ السلام فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا جس مقام کا نام کربلا ہے ۔ پھر جبرئیل نے مجھے ایک مٹھی بھر خاک سونگھائی ۔
گریہ بعد وفات : ترمذی اور دیلمی تحریر کرتے ہیں کہ ام سلمیٰ فرماتی ہیں کہ میں نے جناب رسول خدا (ص) کو خواب میں دیکھا کہ رورہے ہیں اور سر اقدس اور پیشانی مبارک غبار آلود ہے میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا ہم ابھی قتل حسین کے بعد کربلا سے آرہے ہیں ۔