رحمت الہی اور خودکش

خودکشی کرنے والے کا بروز قیامت کیا انجام ہوگا یہ ایک ایسا سوال ہے جسکے جواب کی جستجو کے لئے ہر مسلمان کسی نہ کسی موڑ پر ضرور تلاش کرتا ہے ۔

بے شک خودکشی ایک فعل حرام ہے کیونکہ بوقت خودکشی انسان ایک نفس کو ختم کرتا ہے اور دین اسلام میں قتل نفس حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ "اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرم کردیا ہے اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ ۔ یہ باتیں ہیں کہ جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔

 

اور یہاں ممانعت سے مراد اس فعل کی سرزنش ہےاور اس آیت سے اپنے آپ کو ناحق قتل کرنے کے شرعی حکم کی روایتیں اخذ کی گئی ہیں یہاں تک کہ خداتعالیٰ نے خودکشی کو کفر کی ایک شکل قرار دیا ہے۔

جیساکہ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ " اس کی رحمت سے مایوس نہ ہواکرو اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں " ۔

چونکہ خود کشی کرنے والا وہ ہے جو خدا کی رحمت سے مایوس ہو جائے اور وہ ہے جو خدائےتعالیٰ کی لامحدود طاقت پر شک کرے اور خدا کے علم، غلبہ، انتظام اور حکمت کو کمزور معاذاللہ کمزور سمجھے ۔ وہ اپنے بندوں کے معاملات چلانے میں حکیم ہے، ان کی مصلحتوں سے واقف ہے، گویا خودکشی کرنے والا بھول جاتا ہے اور نظر انداز کر رہا ہوتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ جو کچھ ان میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘ (المائدہ: 120)۔

لہذا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کو کفر سمجھا جاتا تھا۔

بے شک خود کشی کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہنم کا ٹھکانہ قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے - جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو کہ خدا رحم کرنے والا ہے " ۔

منسلکات

: Toseef Raza Khan