6ربیع الثانی 1440ھ بمطابق 14 دسمبر 2018ء نماز حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام میں حرم مطہر حضرت سید عباس علیہ السلام کے متولی علامہ سیداحمد صافی کی امامت میں ادا کی گئی جس کے دوسرے خطبہ جمعہ میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کی موجودگی میں دو شخصیات کے مابین ماجرہ کو بیان کیا۔
گذشتہ خطبات میں بھی اس بات کا ذکر گزرا ہے جس میں ہمارا موضوع سخن غصہ وغضب تھا مگر اس کے علاوہ ایک ایسی حالت بھی ہے جس کا ذکر ضروری ہے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیں
ایک دن جناب عمار یاسر علیہ السلام اور مغیرہ بن شعبہ کے درمیان بحث و مناقشہ ہو رہا تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مغیرہ کا ایک وصف بیان کیا کہ جو بعض لوگوں کو آج بھی گھیرے ہوئے ہے یہ وصف عمومی اور خصوصی مناصب پر فائز ان افراد پر پورا اترتا ہے جو اصلاح کم اور فساد زیادہ کرتے ہیں۔ امير المؤمنين علیہ السلام نے عمار بن یاسر کو جب مغیرہ ابن شعبہ سے سوال وجواب کرتے سنا تو جناب عمّار سے مغیرہ کے بارے میں فرمایا: اے عمار اسے چھوڑ دو اس نے دین سے بس وہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب کرے اور اس نے جان بوجھ کر اپنے کو اشتباہ میں ڈال رکھا ہے تاکہ ان شبہات کو اپنی لغزشوں کے لیے بہانہ قرار دے سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی گفتگو فصاحت وبلاغت اور معیار کی انتہا ہے امام عليہ السلام اس شخص کی تقییم کرتے ہوئے بتانا چاہتے ہیں کہ اس شخص سے گفتگو اور مناقشہ فضول ہے حالانکہ عمّار ایک عالم اور تأريخٍی طور پر اشرف شخصیت ہیں لیکن اس کے باوجود أميرُ المؤمنين علیہ السلام فرماتے ہیں: اسے چھوڑو اس کے ساتھ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے دین سے بس وہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب کرے یعنی اس کے پاس دین نہیں ہے اور نہ ہی یہ شخص حق کی طرف آئے گا یہ طالبِ دنیا ہے۔ البتہ کچھ لوگ سیدھے سیدھے دنیا دار اور طالبِ دنیا ہوتے ہیں جبکہ کچھ دینی دکھاوے کے ذریعے طالبِ دنیا ہوتے ہیں۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ امام علیہ السلام کے کلام کا یہ حصہ شخصیت شناسی کے حوالے سے بہت اہم ہے: اے عمار اسے چھوڑ دو اس نے دین سے بس وہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب کرے اس کے بعد امام علیہ السلام فرماتے ہیں: اس نے جان بوجھ کر اپنے کو اشتباہ میں ڈال رکھا ہے۔ امام علیہ السلام بتانا چاہتے ہیں انسان نے اپنے آپ کو خود ہی دھوکے میں ڈال رکھا ہے جس کے سبب وہ کہتا پھرتا ہے: ’’اس بارے میں مجھے کوئی سمجھ ہی نہیں آ رہی میں صحیح اور غلط میں فرق ہی نہیں کر پا رہا۔ اور اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ میری عقل کمزور ہے مجھ میں جانچنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یا پھر یہاں کوئی بڑا شبہہ ہے اور اس کے تمام پہلوؤں کو حل کرنا میرے لیے ممکن نہیں۔ یا اس معاملہ کے پہلو واضح نہیں ہیں جس نے مجھے بے بسی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یا شاید میں سادہ انسان ہوں میں دوسروں کی گفتگو سے متاثر ہو جاتا ہوں‘‘ بعض لوگ سچ میں مذکورہ بالا حالت میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن انتہائی خطرناک صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب انسان حقیقت میں معاملہ فہمی کے سلسلہ میں بے بس نہیں ہوتا اس میں حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ خود کو جان بوجھ کر بے بس قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اس پر دن میں کچھ فرائض ہے اور کچھ فرائض رات میں ہیں وہ ان فرائض سے بچنے کے لیے کہتا ہے پتا نہیں یہ رات ہے یا دن؟ حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے یا وہ کسی بھی طریقہ سے جان سکتا ہے کہ رات ہے دن؟ لیکن وہ جان بوجھ کر خود کو شک میں مبتلا کر لیتا ہے خود کو مجبور و بے بس قرار دیتا پھرتا ہے۔ یہ شخص ایسا کیوں کرتا ہے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: تاکہ ان شبہات کو اپنی لغزشوں کے لیے بہانہ قرار دے سکے۔ یعنی اس اصل معاملہ کا سو فیصد یقین ہوتا ہے لیکن وہ خود کو بے بس شمار کرتا ہے تاکہ جب بعد میں اگر کوئی اس کی مذمت کرے تو وہ اسے اپنی غلطی کے بہانہ اور عذر کے طور پر پیش کر سکے، ایسے شخص کا اصل ہدف صرف اور صرف اپنا مفاد ہے وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا اوراس نے دین سے بس وہ لیا ہے جو اسے دنیا سے قریب کرے، اور اس نے جان بوجھ کر اپنے کو اشتباہ میں ڈال رکھا ہے تاکہ ان شبہات کو اپنی لغزشوں کے لیے بہانہ قرار دے سکے۔ بعض دفعہ انسان سچ میں معاملہ فہمی سے عاری ہوتا ہے بعض اوقات حقیقت میں انسان کے لیے امور میں اشتباہ ہو جاتا ہے لہذا ایسی صورت میں انسان کو احتیاط سے کام لینا چاہیے دوسروں سے صلاح مشورہ کر لینا چاہیے۔ البتہ کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو تحقیق کرنا ہی نہیں چاہتے اور خود کو دھوکے میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں تاکہ عذر خواہی کے لیے ان کے پاس کچھ باقی رہے اسی قسم کے لوگ امام معصوم کو قتل کرنے کے بعد کہہ دیتے ہم سے بہت بڑا اشتباہ ہو گیا..... انسان کو باریک نظر اور سمجھدار ہونا چاہیے، انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام امور کو دانائی کے ساتھ سرانجام دے، تاکہ کسی چیز کو جان بوجھ کر اپنے اوپر مسلط کرنے کا اندیشہ باقی نہ رہے۔ کسی بھی معاملے میں خطرہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان جان بوجھ کر کسی چیز کو اپنے پہ سوار کر لیتا ہے کیونکہ وہ کوئی موقف اختیار نہیں کرنا چاہتا لہذا وہ اپنے آپ کو مجبور و متحیر قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ہمیشہ بے بس ومجبور ہوتا ہوں اور وہ ایسا اس لیے کرتا ہے تاکہ ہمیشہ عذر اور بہانہ اس کے پاس رہے اور وہ اسے اپنی گمراہی اور غلط کام کا بہانہ بنا سکے۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے مجھے سمجھ ہی نہیں آئی مجھے اشتباہ ہو گیا۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس کا تعلق پورے معاشرہ سے ہے اور اس سلسلہ میں امیر المومنین علیہ السلام کی بیان کردہ تعبیر انتہائی دقیق ہے۔
اترك تعليق