لاکھوں مسلمان 24 ذی الحج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور نصاریٰ نجران کے درمیان واقعہ مباہلہ کی مناسبت سے یاد تازہ کر رہے ہیں۔ آخر یہ "مباہلہ" کیا ہے؟اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سے اس کا کیا تعلق ہے؟
المباھلہ : کا مطلب ہے لعنت کرنا یعنی رحمت خداوندی سے دور کرنا ہے ۔
مثلا کچھ لوگوں میں اگر اختلاف ہوجائے اور نزاع حل نہ ہونے کی صورت میں خدائے بزرگ و برتر کی رحمت سے دوری کے لئے دعا گو ہوتے ہیں۔
اسی طرح مباہلہ کا معنیٰ اس لئے بھی تفسیر کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ شخص مطلوب کو اس کے حال پر بلا رحمت چھوڑدے۔
مباہلہ نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کے واقعہ مباہلہ تک محدود تھا بلکہ آج بھی مباہلہ کے لئے خصوصی احکام موجود ہیں امام جعفر صادق علیہ السلام سے احکام مباہلہ مروی ہیں جوکہ آپ علیہ السلام نے اپنے صحابی ابومسروق کو سکھایا تھا آپ علیہ السلام نے فرمایا : مباہلہ کی تاریخ سے تین دن پہلے تک خود توبہ و پرہیزگار قرار دواور تین دن روزہ رکھنے بھی بعید نہیں ہے اس کے بعد صحراء میں جاکر دائین ہاتھ کی انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ضم کرے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعاگو ہواور یہ دعا مانگے
اللّهمّ ربّ السموات السبع وربّ الأرضين السبع, عالم الغيب والشهادة الرحمن الرحيم, اگر میں نے جودعویٰ کیا ہے اور میں اپنے دعوے میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر مصیبت سماوی اور درد ناک عذاب نازل فرما اور اسی طرح مدمقابل کے بارے میں کہ فلاں اپنے دعویٰ میں اگر جھوٹا ہے تو اس پر درد ناک عذاب و مصیبت سماوی نازل فرما ۔
حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ کا واقعہ مباہلہ جو کہ نجران کے نصرانیوں سے طے پایا تھا جس کی دلیل قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت 61 مشہور آیت مباہلہ ہے
جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے انہیں مباہلہ کے لئے بلایا مگر اپنے کمزور عقیدے اور صداقت رسول اللہ کی بناء پر مباہلے کے لئے نہ آئے اس کے علاوہ بعض روایات میں ملتا ہے کہ اگر مباہلہ کرتے تو واپس اپنے اولاد و مال نہ پاتے ۔
نصرانی نمائندگان کے رئیس نے بتایا کہ بوقت مباہلہ میں ایسے نورانی چہروں کو دیکھتا ہوں کہ اگر پہاڑ کو حکم دیں تو وہ حرکت کریں اس لئے نصیحت کرتا ہوں کہ مباہلہ نہ کرو وگرنہ تاقیامت کوئی نصرانی روئے زمین پر باقی نہ رہے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ مباہلے میں مدمقابل آتے تو اس کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے بندر اور سؤر میں مسخ ہوجاتے اور آگ کی بارش ہوتی یہاں تک کہ تمام ہلاک ہوجاتے ۔
اترك تعليق