اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی نے 6صفر 1439هـ (27 اکتوبر 2017ء) کو روضہ مبارک امام حسین(ع) میں نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں کیا۔ میرے بھائیوں اور بہنوں! میں آپ کی خدمت میں زیارت اربعین کے بارے میں چند امور پیش کرنا چاہتا ہوں..... اللہ سے دعا ہے کہ وہ داعش کی باقیات سے برسرپیکار عسکری جوانوں کامیابی عطا کرے..... ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی جدوجہد کو جلد از جلد فتح و نصرت کامران کرے اور انھیں سرکش داعشی دہشت گردوں کے خلاف مکمل فتح و کامیابی کی بشارت عطا کرے.... اللہ سے التجا ہے کہ ان عسکری جوانوں کو مزید توفیق عطا فرمائے، شہداء کو اپنی رحمت کا گہرا سایہ نصیب کرے اور زخمیوں کو جلد شفا کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ہم پر احسان ہے ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو زیارت اربعین کے مراسم میں شامل ہونے کے شدید خواہش مند تھے لیکن داعش کے خلاف جنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہ ایسے نہیں کر پا رہے...... اللہ تعالی ان کو ان کی خواہش کے بدلے زیارت اربعین میں شرکت اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا ثواب عطا کرے۔ عنقریب چہلم حضرت امام حسین علیہ السلام کی آنے والی زیارت کے حوالے سے بعض امور کی طرف تاکیدًا توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ 1۔ماحول زیارت کو ایسے ہی برقرار رکھا جائے جیسا کہ ماحول کو برقرار رکھنا اور اس کا اہتمام ضروری ہے آپ جانتے ہیں کہ چہلم کے ایام دیگر ایام کی نسبت مختلف ہوتے ہیں قصد یہ ہے کہ جب انسان اللہ پر توکل کرتے ہوئے سید الشہداء(ع) کی زیارت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ زیارت اربعین کے خاص ماحول کو برقرار رکھے کہ جو حزن و ملال اور سید الشہداء(ع) کے مرقد کی زیارت کے لیے آنے پر اجر کے حصول پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ یہ عمل درست طور پر انجام پائے اور اس مبارک سعی کا مطلوبہ فائدہ بھی حاصل ہو واقعہ کربلا کے حامل بلند اخلاق اور یہ اخلاق پہلے سے موجود ہے کو زیارت اربعین کے ایام میں اپنایا جائے ،میں اس کا ذکر تاکید کے طور پر کر رہا ہوں نہ کہ تاسیس کے طور پر۔ بس اس اخلاق پر کارمند ہونا تقاضا کرتا ہے، زائرین کے لیے استراحت گاہ اور خدمت گزاروں افراد انکساری، زائرین کی خدمت اور ہر ایک کے ساتھ پر شفقت رویہ اختیار کرنے میں بہت ہی بلند اخلاق کے مالک ہیں اور اسی طرح سے خواتین زائرات کی خدمت کے لئے زنانہ مہمان خانہ میں بھی زائرات کے ساتھ رویہ اور میل جول بہت عالی ہے ۔ 2۔یہی ہماری تمنا ہے کہ اس بلند اخلاق پر مشتمل ماحول کے اثرات زیارت کے بعد بھی باقی رہیں۔ جیسا کہ ہم رمضان میں کہتے ہیں ماہ رمضان میں انسان بھوک اور پیاس کو برداشت کرتا ہے لیکن رمضان کے بعد کھانا اگر تھوڑا سا لیٹ ہو جائے تو مزاج بگڑنے لگتا ہے..... اور یہ چيز مناسب نہیں، جہاں تک انسان کے بس میں ہے تب تک ساتھ دینا چاہیئے ۔
اصحاب استراحت گاہ اور پیدل آنے والے زائرین نے جو اخلاقی ماحول بنایا ہوا ہے یہی ماحول اخلاقیات کی تربیت دیتا ہے اور اس کے اثرات زیارت کے بعد بھی باقی رہتے ہیں جو کہ ایک بہت ہی مثبت نتیجہ ہے۔ 3۔امام حسین(ع) ایک بہت ہی عظیم مشن کے مالک ہیں انھوں نے اس مشن کو بہت دقیق نظر سے اختیار کیا اور اس میں مکمل کامیابی حاصل کی. انھوں تمام امور کو منظم کیا اور ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔ امام حسین(ع) نے جو کامیابی حاصل کی ہے اس کا ہمیں پورا ادراک نہیں ہے اس کامیابی کے بہت ہی تھوڑے سے حصے کے بارے میں ہمیں معلوم ہے اور جہاں تک باقی کا تعلق ہے تو ہر سال اس بارے میں نئی نئی چیزوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ جس طرح حضرت امام(ع) نے اپنے خاندان اور دیگر افراد کو ساتھ لا کر اپنی تحریک کو بہترین انداز میں منظم کیا اسی طرح ثانی زہراء (ع) اورحضرت امام سجاد(ع) کے کردار و موقف کی مثل تمام مواقف اسی تنظیم کی بدولت تھے اور اسی طرح واقعہ کربلا میں حضرت امام(ع) نے اپنے ساتھیوں کی ایسی تربیت کر دی تھی کہ کوئی ایک بھی ان میں سے اس تربیت سے باہر نہ نکلا میدان جنگ میں جانے کے لیے بھی ہر ایک اجازت لے کر نکلتا رہا...... ہم بھی چاہتے ہیں امام حسین(ع) ہماری تربیت کریں اور اس میں کوئی شک نہیں امام حسین(ع) نے ہی ہماری تربیت کی ہے اور ہمارے اندر ہر وہ چیز پیدا کر دی ہے کہ جو ہمیں دنیا و آخرت میں نجات دلا سکتی ہے..... ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عوامی املاک اور صفائی کا خیال رکھنے میں اس تربیت سے غافل نہ ہوں......یہ حسینی مشن اس راستے اور زیارت کے ذریعے ہمیں سید الشھداء سے استفادہ کا موقع فراہم کرتا ہے اور حسینی زائر کو مختلف صفات حمیدہ کی تربیت دیتا ہے مثال کے طور پر اول وقت میں نماز پڑھنا، اپنے آپ کو اور اپنی سیرت کو پاک صاف رکھنا......وغیرہ زائر امام حسین علیہ السلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر اس چیز سے پرہیز کرے جو اس کی ذات کو نقصان پہنچاتی ہے اور اسی طرح ہر اس چیز سے بھی دور رہے جو دوسروں کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ زیارت ان برادران کے لیے بھی ایک بڑی فرصت ہے کہ جو شرعی مسائل پوچھنے میں شرم محسوس کرتے ہیں...... شرم و حیاء دو طرح کی ہوتی ہے ایک شریعت کی نظر میں قابل تعریف ہے جبکہ دوسری قابل مذمت۔ انسان اپنے والدین کا احترام کرتا ہے ان کے سامنے شرم و حیاء محسوس کرتا ہے تو یہ ایک قابل تعریف شرم و حیاء ہے اسی طرح پڑوسیوں اور اپنے بھائیوں کے احترام کی وجہ سے کسی حوالے سے حیاء محسوس کرتا ہے تو یہ بھی ایک قابل تعریف شرم و حیاء ہے ۔ لیکن اگر انسان شرعی مسائل پوچھنے اور دینی امور کے بارے میں سوال کرنے میں شرم محسوس کرتا ہے تو یہ قابل مذمت شرم و حیاء ہے..... کربلا کے پورے راستے میں حوزہ علمیہ نجف اشرف نے جگہ جگہ تبلیغی مراکز قائم کیے ہیں اور وہاں ایک ہزار سے زیادہ مبلغین اور مبلغات کو بھیجا ہے کہ جو کربلا کے تمام راستوں میں موجود ہیں اور شرعی مسائل و سوالات کا جواب دینے کے لیے ہر وقت حاضر خدمت ہیں۔ میری اپنے زائر بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ دینی سوالات پوچھنے میں شرم و حیاء سے کام نہ لیں جو بھی شرعی سوال کرنے میں شرم محسوس کرتا ہے وہ غلطی پر ہے اور اس کی یہ شرم و حیاء شریعت کی نظر میں قابل مذمت ہے۔ میری اہل مواکب اور پیدل چلنے والوں سے ایک یہ بھی گزارش ہے کہ وہ دہشت گردوں کے حملوں سے ہوشیار رہیں کیونکہ میدان جنگ میں ہمارے بھائیوں نے انہیں ایسا سبق سکھایا ہے کہ وہ ساری عمر اسے بھلا نہیں سکتے اور انہیں وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے یہ بزدل دہشت گرد میدان جنگ میں شکست کے بعد زائرین کو نشانہ بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ایک ہوٹل میں نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا...... اہل مواکب کو چاہیے کہ وہ زائرین کی خدمت کے ساتھ ساتھ امن و امان کے حوالے سے بھی ہوشیار رہیں اور یہی ذمہ داری میرے زائر بھائیوں کی بھی ہے..... آپ کا کٹا ہوا ایک ناخن بھی پوری داعش اور ان کے پشت پناہوں سے افضل ہے لہٰذا ضروری ہے کہ سیکورٹی کو اہمیت دیں اور سیکورٹی اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ خدا سے دعا ہے کہ تمام زائرین اپنے منزل تک پہنچیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ان کے اس عمل کو قبول فرمائے..... اور ہمیں اس ملک میں ہر طرح کی خیر و عافیت دیکھائے اور اس وطن کے دفاع کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کو کامیابی سے ہمکنار کرے اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ سب کو اس وطن میں امن و امان اور استقرار دیکھائے.والحمد للہ رب العالمین.
اترك تعليق