پناہ فتنہ اور فرمان حضرت علی علیہ السلام

امير المومنين عليہ السلام فرماتے ہيں کہ

 تم ميں سے ہرگز کبھي کوئي يہ نہ کہے کہ اے اللہ! مجھے فتنوں سے پناہ دے بلکہ تم ميں سے کوئي ايسا نہيں کہ جو فتنہ ميں شامل نہيں بلکہ اگر پناہ مانگني بھي ہو تو فتنہ کي گمراہيوں سے مانگو (کيونکہ وہ شديد تر ہيں) پس اللہ تعالي فرماتا ہے کہ تمارا مال اور تمہاري اولاد فتنہ ہيں

اس کا مطلب يہ ہے کہ اللہ تعالي تمہيں مال اور اولاد کے ذريعے آزماتا ہے (امتحان دنيوي ميں)۔ تاکہ يہ پتہ چل سکے کہ اللہ تعالي کي تمہارے اوپر تقسيم رزق اور اعطاء اولاد کے معاملے ميں اللہ تعالي پرکتني حد تک راضي ہو کيونکہ بعض لوگ اولاد ميں لڑکوں کو پسند کرتے ہيں اور لڑکيوں سے کراہت اختيار کرتے ہيں اوربعض لوگ مال ميں فراواني کو دوست رکھتے ہيں اور مفلسي سے کراہت رکھتے ہيں ۔

       توحيد شيخ صدوق عليہ الرحمہ ميں فرماتے ہيں کہ اس سے مراد اللہ تعالي کے بندوں ميں کچھ بندے ايسے جن کا ايمان(چونکہ اللہ تعالي دلوں کے راز سے عالم ہے)اگر وہ زاہد ہيں تو آرام (عبادت کے ترک کرنے پر) کھو بيٹھيں گے ، اور کچھ ايسے مومن ہيں کہ جن کا ايمان ان کي تنگدستي ميں ہے کہ اگر وہ مالدار ہوجائيں تو ان کے ايمان متزلزل ہوجائيں اور کچھ وہ ہيں جن کا ايمان ان کي مالداري اور صاحب ثروت ہونے ميں ہے کہ اگر وہ تنگدست ہو جائيں تو اپنے ايمان کو ترک کر بيٹھيں اور کچھ کا ايمان ان کے بانجھ ہونے ميں ہے اگر انہيں شفا دي جائے تو وہ گمراہ ہوجائيں اور کچھ ايسے ہيں کہ جن کے ايمان ان کے صحتمند ہونے ميں ہے اگر بانجھ ہوں تو متزلزل ہوجائے ۔ مگر قول الہي ہے کہ ميں اپنے بندوں کي مصلحت ان کے قلوب کے علم کے مطابق رکھتا ہوں اور ميں سب سے زيادہ علم رکھنے والا اور صاحب تدبير ہوں ۔

       اور اللہ تعالي فرماتا ہے کہ " اور جان لو کہ تمہارا مال اور اولاد (تمہارے لئے) فتنہ ہيں اور اللہ کے نزديک تمہارے لئے اجر عظيم ہے"

اس سے مراد ہے کہ اللہ تمہارا امتحان ليتا ہے ان فتنوں کے ذريعے کہ کيا تم اپنے مال کي اعطاء اور اولاد کي تقسيم پر اللہ تعاليٰ سے راضي ہو ۔

اور بيشک اللہ تعالي ان کے نفسوں سے زيادہ ان پر علم رکھتا ہے ۔ مگر وہ اس لئے اپنے بندہ کو سخط امتحان ميں رکھتا ہے تاکہ ان افعال کو اپنے بندہ پر عياں کر سکے جن کي بدولت وہ مستحق سزاء و جزاء ہوتا ہے ۔ کيونکہ جزاء فقط نيت پر ہي نہيں بلکہ عمل پر ملتي ہے ۔

اور جيسا کہ بعض لوگ کہ جو تنگدستي ميں مبتلا ہوتے ہيں اس خوف سے کہ وہ کہيں وہ خواہشات نفساني کے تابع نہ ہوجائيں اللہ سبحانہ وتعالي ان کو مال کثير سے محروم رکھتا ہے کيونکہ ہمارے معاشرے ميں اکثر ملاحظہ کر سکتے ہيں کہ صاحب مال اشخاص ان حقوق کو جو اللہ تعالي نے ان پر واجب کئے ہيں نکالنے سے قاصر رہے ہيں (مثلا زکوۃ ، خمس ،وغيرہ) اور ٹھيک اسي طرح جب صاحب اولاد انسان کو جب اپني اولاد کے اوپر آنيوالي تنگدستي کے خوف سے غيرشرعي طريقوں سے روزي حاصل کرنے لگتا ہے اسي لئے اللہ تعالي نے اس بندہ مومن کو ايسے فعل سے باز رکھنے کے لئے اولاد کي نعمت سے محروم رکھتا ہے ۔

منسلکات