اسماء عبودیہ کا جواز

کافي حد تک يہ سننے ميں آيا ہے کہ وہابيوں کيطرف سے عبد علي ، غلام علي غلام عباس عبدالزہرۃ اور عبدالحسين جيسے نام رکھنا شرک کے زمرہ ميں آتا ہے کيونکہ عبوديت اللہ تعاليٰ کے سوا کسي کے لئے صحيح نہيں اور اپنے اس اشکال کي دليل ميں اس آيہ کريمہ کو دليل ميں لاتے ہيں کہ

"بل اللہ فاعبد" (الزمر 66)

اور اثبات کرتے ہيں کہ شيعوں کا ايسے نام رکھنا جائز نہيں ہے۔

جواب:

روئے زمين پر کوئي بھي شيعہ مسلمان اللہ تعاليٰ کے سوا کسي کي عبوديت پر يقين نہيں رکھتا اور ہمارا ايسے اسماء کے ساتھ نامگذاري کرنا بمعنيٰ خادم ہے اور خادم بمعنيٰ مطيع ہے اور اس قول پر کہ امام حسين عليہ السلام تو شہيد ہوگئے اپنے زمانے ميں تو اب کوئي کيسے انکا خادم ہو سکتا ہے تو ہم کہتے ہيں کہ خادم بمعنيٰ اطاعت کے ہے مثلا اگر کوئي يہ کہے کہ فلان خادم الاسلام ہے تو اسکا مظلب يہ نہيں کہ اس نے دين کو پاني پلايا يا وضوکرايا بلکہ دين ميں پاني کي احتياج کے وقت پاني سے خدمت کي۔

اس کے علاوہ خود رسول اکرم صليٰ اللہ عليہ وآلہ اس بات پر فخر کيا کرتے تھے کہ وہ فرزند عبد المطلب ہيں تو کيا وہ نعوذباللہ شرک کي طرف مائل تھے جبکہ يہ علم رکھتے ہوئے کہ ان کا اصل نام عامر ہے اور يہ روايت ابو داوود کي سنن ترمذي ميں اور صحيح ابن حبان ميں مستدرک الحاکم ميں ،مسند ابو يعليٰ ميں اور صحيح بخاري ميں درج ہے کہ رسول کريم صليٰ اللہ عليہ وآلہ نے روز حنين فرمايا تھا کہ "ميں نبي جھوٹ نہيں بولتا ميں عبدالمطلب کا بيٹا ہوں"

 رسول کريم صليٰ اللہ عليہ وآلہ زمن اسلام ميں اسماء شرک تبديل کرديا کرتے تھے مگر ہم نے نہيں ديکھا کہ انہوں نے جناب عباس بن عبدالمطلب کا نام تبديل کيا ہو باوجود اس کے کہ آپ بغير وحي کے کلام نہيں کرتے تھے اور آپ کے کلام کي تصديق الہيۃ بشکل قرآن کريم موجود تھي۔

بعض علماء اہل سنۃ نے يہاں تک تخفيف دي ہے کہ اگر بغرض شرف نامگذاري کي جائے تو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے بلکہ تاريخ ميں چند چيد علماء اہل سنت جن کے اسماءبنسبت رسول کريم صليٰ اللہ عليہ وآلہ موجود ہيں مثلا صاحب کتاب جامع العلوم اور امام علامہ ابراہيم بن عثمان بن عبد النبي الحنفي وغيرہ۔

تو کيا يہ سب مشرکين ميں شمارہونگے؟؟؟؟؟؟

منسلکات