صلح حدیبیہ میں محو نبوت کمال ادب یا نافرمانی؟

مبغضین امیرالمومنین علی علیہ السلام کی جانب سے بعض اوقات ایسے شوشے اڑائے جاتے ہیں تاکہ اپنی مجازی حقیقت کو حقیقی میں تبدیل کرسکیں ان میں سے صلح حدیبیہ کہ کس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کا اسم مبارک بحیثیت رسول اللہ محو کیا جائے اور فقط اسم گرامی تحریرکیا جائے کیونکہ صلح حدیبیہ میں سہیل بن عمرو کی جانب سے شرائط میں مطلوب تھا اسی بناء پر امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے محو نہ کیا مگر اس واقعہ کی تفاصیل میں چند موارد قابل ذکرہیں

1۔ بعض روایات میں اختلاف ہے کہ آیا اس صلح حدیبیہ میں انکار حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام نے کیا یا کسی اور نے؟اور ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ بعض مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا اسم گرامی بحیثیت نبوت محو کرنے سے منع کیا۔

2۔ امام علیہ السلام کسی ایک دن بھی نبوت رسول اللہ پر شک نہ کرتے تھے بلکہ آپ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کے تمام فیصلوں پر یقین رکھتے تھے

3۔ روایت میں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو بتایا کہ میرا دست اس ہاتھ کو نہیں کرسکتا ،نہ یہ کہ  آپ علیہ السلام نے انکار کیا ، اور آپ سے اپنا دست مبارک اپنے دست مبارک پر رکھنے کی درخواست کہ مجھ سے نبوت آپ کے نام سے محو ناممکن ہے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنا دست مبارک دست امیرالمومنین علیہ السلام پر رکھا اور محو فرمایا۔

4۔بعض علماء نے بھی اس فعل کو ادب و احترام کا اعلیٰ درجہ قرار دیا کیونکہ یہ انکار کے زمرے میں نہیں آتا کیونکہ یہ عناد و معصیت کے باعث نہ تھا جیسا کہ روایت میں ہے کہ شرح صحیح بخاری (ابن بطال البکری) میں ہے کہ علی علیہ السلام کا بجانہ لانا ایک ادبی فعل تھا نہ کی نافرمانی۔

منسلکات